پاکستان میں مردم شماری، ٹرانس جینڈر بھی شمار کیے جائیں گے
13 مارچ 2017اس مرتبہ ہونے والی مردم شماری میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹرانس جینڈر افراد کو ایک علیحدہ درجے میں شمار کیا جائے گا۔ اس کمیونٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
پاکستان: خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں شامل کیا جائے گا
پاکستان میں ایک احمدی مسجد پر حملہ، متعدد زخمی
پاکستان سے مسلم، غیر مسلم اقلیتوں کی رخصتی کے اسباب
عدالتی فیصلوں کے بعد ٹرانس جینڈر افراد کو ایک الگ کیٹیگری میں شمار کرنے کی خاطر سروے فارمز پرنٹ کر لیے گئے ہیں۔ مردم شماری کے سروے پیپرز کے مطابق شمار کنندگان سے پوچھا جائے گا کہ وہ مرد ہیں، عورت ہیں یا ٹرانس جینڈر۔
مقامی میڈیا کے مطابق پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے شیڈول کے مطابق پہلا مرحلہ پندرہ مارچ تا پندرہ اپریل جب کہ دوسرا مرحلہ پچیس اپریل تا پچیس مئی جاری رہے گا۔ ان مرحلوں کے اختتام کے دو ماہ کے بعد حتمی نتائج جاری کر دیے جائیں گے۔
اس مرتبہ مردم شماری میں پاکستان کی کثیر الجہتی و نسلی آبادی کی گنتی میں زبان کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے۔ تاہم ملک میں رائج ستر میں سے صرف نو زبانوں کو سروے فارم کا حصہ بنایا گیا ہے، جس پر کئی ایسی کمیونٹیوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، جن کی مادری زبان کو اس سروے فارم میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔
اس سروے فارم میں نہ تو گلگت بلتستان میں بولی جانے والی زبانوں کو شامل کیا گیا ہے اور نہ ہی گجراتی زبان کو۔ اسی طرح کئی ایسے زبانوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے، جو پاکستان میں ایک بڑے حصے میں بولی جاتی ہیں۔
حکام نے بتایا ہے کہ اس مردم شماری کے بعد معلوم ہو سکے گا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی درست تعداد کیا ہے۔ اس مرتبہ بالخصوص ہندو اور مسیحی برادری کی بھی درست مردم شماری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مردم شماری کے سروے فارم کے مطابق پاکستانی خود کو مسلمان، مسیحی، ہندو یا احمدی ظاہر کر سکیں گے۔ تاہم سکھ، پارسی یا بہائی کمیونٹی کے افراد کو اس مردم شماری میں نہیں گنا جا رہا ہے۔
کئی مقامی اہلکاروں نے تحفظات ظاہر کیے ہیں کہ اس مردم شماری میں ایسے افغان باشندوں کی گنتی بھی کی جا سکتی ہے، جو کئی عشروں سے پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جس کے باعث پاکستان کے کچھ علاقوں کی ڈیموگرافی میں پشتونوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس مرتبہ غیر ممالک کام کرنے والے چھ ملین پاکستانیوں کا شمار نہیں کیا جائے گا۔