پاکستان میں مسافر گاڑیوں پر حملے میں کم از کم 38 افراد ہلاک
21 نومبر 2024صوبے خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری نے بتایا کہ جمعرات کو ہونے والے حملے میں کم از کم 38 افراد ہلاک اور 29 زخمی ہوئے ہیں۔ ندیم اسلم چوہدری کے مطابق قبائلی ضلع کرم میں ہونے والے اس حملے میں ایک عورت اور ایک بچہ بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''یہ ایک بڑا سانحہ ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔‘‘
افغانستان کی سرحد سے متصل اس قبائلی علاقے میں زمینی تنازع پر مسلح شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان کئی دہائیوں سے تناؤ موجود ہے۔
مقامی انتظامیہ کے اہلکار واجد حسین نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو میں میں کہا کہ مرنے والوں میں کم از کم تین خواتین شامل ہیں۔
مقامی پولیس کے سربراہ سلیم شاہ نے ڈی پی اے کو بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کچھ لاشیں پرائیویٹ کلینکس میں منتقل کی گئی ہوں اور ابھی تک ان کو سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہ کیا گیا ہو۔
ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ماضی میں شیعہ مسلمانوں پر ایسے حملوں کے پیچھے پاکستانی طالبان یا داعش کا ہاتھ رہا ہے۔
پاراچنار کے ایک مقامی رہائشی زیارت حسین نے ٹیلی فون پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ''مسافر گاڑیوں کے دو قافلے تھے، جن میں سے ایک پشاور سے پاراچنار اور دوسرا پاراچنار سے پشاور جا رہا تھا، جب مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے رشتہ دار پشاور سے اس قافلے میں شامل ہوئے تھے۔
پاکستان کے صدرآصف علی زرداری نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔ انہوں نے حکام کو اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا ہے۔
سنی اکثریتی پاکستان کی 240 ملین آبادی کا تقریباً 15 فیصد شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ دونوں مذہبی برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی کی بھی ایک تاریخ ہے۔
اگرچہ یہ دونوں مذہبی برادریاں ملک میں بڑے پیمانے پر پرامن طور پر اکٹھا رہتی ہیں تاہم بعض علاقوں، خاص طور پر کرم ایجنسی کے کچھ حصوں میں، جہاں شیعہ غلبہ رکھتے ہیں، کئی دہائیوں سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔
ا ا / م م (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)