پاکستان میں پولیو کے خلاف ملک گیر مہم مکمل
29 ستمبر 2010وفاقی وزارت صحت کے مطابق اس سلسلے میں ملک بھر میں 35 ہزار ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں، جنہوں نے گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچاؤکے قطرے پلائے۔ تاہم اس طرح کی حکومتی کوششوں کے باوجود پاکستان اب بھی دنیا میں اس بیماری سے متاثرہ ممالک میں سر فہرست ہے۔
عالمی ادارہء صحت کے مطابق اس سال پاکستان میں پولیو کے 59 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے پچاس فیصد سے زائد واقعات قبائلی علاقوں میں سامنے آئے ہیں۔
پاکستان میں انسدادِ پولیو کے قومی پروگرام کے مینیجر ڈاکٹر الطاف حسین بوسن کا کہنا ہے: ’’اس سال پولیو کے 59 کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں سے 32 فاٹا میں رپورٹ ہوئے ۔ فاٹا میں رسائی کا مسئلہ ہے۔ کہیں سکیورٹی خدشات اور کہیں انتظامی معاملات درپیش ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہم یہ نہیں کہتےکہ ایجنسیوں میں صحت کے مراکز باقاعدگی سے کام کر رہے ہیں لیکن ہم اس وقت بھی ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ ایجنسیوں کےلئے خصوصی منصوبےشروع کرنےکے لئے کام کیا جائے۔‘‘
دوسری جانب پاکستان میں موجود عالمی ادارہء صحت کے نمائندے ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ سیلاب کے سبب نقل مکانی کرنے والوں میں بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہے اور اگر ان کو پولیو سے بچاﺅ کی ویکسین نہ دی گئی تو اس بیماری کی شرح میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر نیما عابد کے مطابق ابھی تک مظفر گڑھ کے امدادی کیمپ میں ایک بچے میں پولیو کے مرض کی تشخیص ہوئی ہے اور اس بیماری کے پھیلاﺅکو روکنے کےلئے سرتوڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر نیما عابد کہتے ہیں: ’’جب آپ کو ایک مخصوص مرض اور وائرس کا سامنا ہو تو ایسے میں سیلاب کے بعد اس کے پھیلنے کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس لئے حکومت پاکستان اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کو خسرے اور پولیو کے خلاف ویکسین مہیا کر رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ ان علاقوں میں اس بیماری کے زیادہ واقعات سامنے نہیں آئیں گے۔‘‘
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں پانچ سال سے کم عمر کے پندرہ لاکھ بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یونیسیف کے ترجمان سمیع ملک کے مطابق موجودہ حالات میں ان کم سن بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچانا اور صحت کی بنیادی سہولیات ان تک پہنچانا ہی اصل چیلنج ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں