پاکستان کی خفیہ ایجنسی کورونا کا مقابلہ کیسے کر رہی ہے؟
28 مئی 2020پاکستانی خفیہ ایجنسی کورونا وائرس کے مریضوں اور ان کے ساتھ رابطے میں آنے والے لوگوں کا سراغ لگانے کے لیے نگرانی کی وہی ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے، جو عام طور پر عسکریت پسندوں کا سراغ لگانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے عوامی سطح پر اپنے کورونا پروگرام کی نوعیت اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے وائرس سے نمٹنے کے لیے انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) سے مدد لی ہے تاکہ پاکستان میں اب بھی تیز رفتار ی سے پھیلنے والے وائرس کا سدباب کیا جا سکے۔
اس منصوبے کے بارے میں تفصیلات جاری نہیں کی گئیں لیکن دو حکومتی عہدیداروں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ انٹیلی جنس خدمات جیو فینسنگ اور فون مانیٹرنگ سسٹم کا استعمال کر رہی ہیں۔ خفیہ ایجنسی عام طور پر ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں سمیت ہائی پروفائل اہداف کی تلاش کے لیے یہ ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہیں۔
ایک طرف آگاہی کی کمی اور معاشرے میں بدنامی کے خوف کے شکار کچھ لوگ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ انیس کی علامات کے باوجود ٹیسٹ کروانے سے گریز کر رہے ہیں حتیٰ کہ ہسپتالوں سے فرار ہو رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وائرس سے متاثرہ مریضوں سے رابطہ رکھنے والے افراد خود کو الگ تھلگ رکھنے کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ایک سینیئر سکیورٹی عہدیدار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی اب کورونا وائرس کے کیسز کو ٹریک کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ''کافی موثر انداز‘‘ سے کر رہی ہے۔
اس سکیورٹی عہدیدار نے مزید کہا،''حکومت ان لوگوں کا بھی پتا لگانے میں کامیاب رہی ہے، جن کے ٹیسٹ کے نتائج پازیٹیو یا مثبت ظاہر ہوئے تھے لیکن وہ روپوش ہو گئے تھے۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ جیو فینسنگ اور ٹریکنگ سسٹم بروئے کار لایا جا رہا ہے جو کہ ایک خودکار نظام ہے اور کسی شخص کے کوئی مخصوص جغرافیائی علاقہ چھوڑنے پر حکام کو متنبہ کرتا ہے۔ حکام اور اہلکاروں کو لاک ڈاؤن کے دوران محلوں کی نگرانی میں اس نظام سے بہت مدد ملی ہے۔
حکام کووڈ انیس کے مریضوں کی فون کالز بھی سن رہے ہیں تا کہ ان کی نگرانی کی جا سکے اور ان کے ساتھ رابطے میں رہنے والوں کی بات چیت سن کر یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آیا وہ اپنے اندر کووڈ انیس کی علامات کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں یا نہیں۔
ایک انٹیلی جنس آفیسر نے بتایا،''ٹریس اینڈ ٹریک کا نظام بنیادی طور پر ہمیں غائب یا فرار ہو جانے والے کورونا مریضوں کے موبائل فون ٹریک کرنے اور ساتھ ہی ان کی گمشدگی سے پہلے اور بعد دونوں وقتوں میں ان کے ساتھ رابطے میں آنے والے افراد کی کھوج میں مدد دیتا ہے۔‘‘
وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں اس پروگرام کی تعریف کی، جو وائرس کے خلاف جنگ میں استعمال کیا جا رہا ہے تاہم اس پر بہت کم عوامی بحث سامنے آئی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا،''پہلے یہ دہشت گردی کے خلاف استعمال ہو رہا تھا لیکن اب یہ کورونا وائرس کے خلاف کارآمد ثابت ہوا ہے۔‘‘
پاکستان میں لگ بھگ ساٹھ ہزار افراد میں اس مرض کی موجودگی ٹیسٹ کے ذریعے ثابت ہوئی ہے۔ اور بارہ سو سے زیادہ مریض فوت ہو چکے ہیں۔ لیکن ٹیسٹ یا جانچ ابھی تک محدود ہونے کی وجہ سے حکام کو تشویش ہے کہ کورونا پازیٹیو کیسیز کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز اور فوج ثقافتی اور سیاسی زندگی کے متعدد پہلوؤں پر بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کو یہ خوف ہے کہ حکام نگرانی کے اس نظام کو سیاسی مخالفین کی جاسوسی کرنے اور انہیں نشانہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم معروف کارکن اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے اے ایف پی کو اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا،''مریضوں اور مشتبہ کیسز کی کھوج لگانے کا کام صوبائی حکومتوں اور مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کیا جانا چاہیے۔ خفیہ ایجنسیوں کو اپنا اصل کام کرنے دیں۔‘‘
دنیا بھر کے ممالک نے اس وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس طریقوں کا استعمال کیا ہے، جس سے رازداری کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس سروسز انسداد دہشت گردی کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی رہی ہیں، جس میں موبائل فون کا سراغ لگانا بھی شامل ہے۔
پاکستان میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان ہچکچاہٹ کے شکار نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا غریب ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟ تاہم انہوں نے بڑے پیمانے پر پاکستان کے طاقتور مذہبی طبقے کے دباؤ کا بھی مقابلہ کیا، جس نے مساجد کی بندش کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔
بہت سارے پاکستانیوں نے صوبائی لاک ڈاؤن آرڈرز کو نظرانداز کیا۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے کاروبار کو مرحلہ وار دوبارہ کھولنے کی اجازت دی ہے اور اس اقدام کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ روزانہ بنیادوں پر اجرت حاصل کرنے والے افراد پر اس کا مثبت معاشی اثر ہو گا۔
ک م / اا (اے ایف پی)