'پاکستان کی ہندو عورتیں جبری طور پر مذہب کی تبدیلی سے محفوظ‘
12 اپریل 2017جنوبی پاکستان کے صوبے سندھ کی رہائشی گوبیا پاکستان کی ان لاکھوں ہندو خواتین میں سے ایک ہے جنہیں اب ہندو میرج ایکٹ کے تحت شادی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کا حق ہے۔ پچیس سالہ گوبیا نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ کنواری اور شادی شدہ ہندو خواتین تبدیلی مذہب کے لیے اغوا یا زبردستی کسی اور مذہب کے ماننے والے کے ساتھ شادی کرنے کے خوف تلے دبی ہوئی تھیں۔‘‘ گوبیا توقع کرتی ہے کہ اس قانون کے باعث اب ہندو عورتوں کے اغوا اور جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے واقعات میں کمی آئے گی۔ گوبیا کے لیے یہ بات بھی باعث تسلی ہے کہ اس قانون کے تحت دوسری شادی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے ملک کے لگ بھگ 3 ملین ہندوؤں کو اپنی شادیوں کو حکومت کے پاس درج کرانے کا حق نہیں تھا۔ اس سال 19 مارچ کو ہندو میرج ایکٹ کو منظور کروانے میں وکیل ارجن داس نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ارجن نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ہماری شادی شدہ بیٹیاں اور بہنیں اثر و رسوخ رکھنے والے مقامی افراد کی جانب سے اغوا کی گئی ہیں اور انہیں زبردستی مسلمان کیا گیا ہے اور انہیں زبردستی اغواکاروں کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کیا گیا ۔‘‘
ایسے ہی ایک ظلم کا شکار سولہ سالہ انجلی کماری بھی ہوئی تھی جسے تین برس قبل سندھ کے علاقے ڈھیرکی سے دن دیہاڑے اس کے گھر سے اٹھا لیا گیا تھا اور اسی دن اسے زبردستی مسلمان کر دیا گیا تھا۔ عدالت میں مقدمہ چلنے کے باوجود اس کے والدین انجلی کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
حکومت کے مطابق پاکستان کے تاریخی ہندو میرج ایکٹ کا مقصد ہندو برادری کی خواتین اور بچیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف زاہد حامد نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ ملک کے مختلف علاقوں میں شادی رجسٹرار تعینات کیے جائیں گے۔ انہیں ہندو شادیوں کو رجسٹر کرنے، سرٹیفیکیٹ جاری کرنے اور شادیوں کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کے اختیارات دیے جائیں گے۔‘‘
پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رامیشن کمار وانکوانی کو خدشہ ہےکہ اس قانون پر عمل درآمد حکومت کی جانب سے سخت اقدامات اٹھانے سے ہی ممکن ہو گا۔ انہوں نے کہا،’’یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی اقلیتوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے۔‘‘
ہائی کورٹ کے وکیل ناند لال لاوھا کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بارے میں وکیلوں، پولیس اور مجسٹریٹوں کو آگاہی فراہم کرنا چاہیے تاکہ ہندو لڑکیوں اور خواتین کو انصاف کی فراہمی یقینی طور پر ممکن ہو سکے۔