پاک ایران پائپ لائن منصوبہ، نئے مسائل
14 مارچ 2012پاکستانی وزیر خارجہ نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کی ہے جب کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کو آگاہ کیا گیا ہے کہ منصوبے کی فنڈنگ کے لیے موجودہ فریق انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا (آئی سی بی سی) کی اس منصوبے میں دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے چینی بینک کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے گیس پائپ لائن کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درکار مالی وسائل اکٹھے کرنے کے دیگر راستوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
یہ کمیٹی وزیر پٹرولیم، وزیر پانی و بجلی، گورنر سٹیٹ بینک اور اقتصادی امور ڈویژن، وزارت پٹرولیم اور خزانہ کے سیکرٹریوں پر مشتمل ہو گی۔ادھر پاکستانی وزارت پٹرولیم نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر اور شائع ہونے والی ان خبروں کی وضاحت بھی جاری کی ہے کہ آئی سی بی سی نے اس منصوبے کے حوالے سے مکمل طور پر کام بند نہیں کیا۔ تاہم وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے دفتر خارجہ میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی کی مرضی پر نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ آغاز میں اس منصوبے میں بھارت بھی شامل تھا، لیکن اس کے دستبردار ہونے کے باوجود پاکستان نے یہ منصوبہ جاری رکھا ہے اور اب بھی اس پر کام جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کے لیے مالی وسائل کی دستیابی کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔
انہوں نے کہا،’’میں فوری طور پر اس بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچوں گی کہ کس طرح کے مالی وسائل موجود ہیں اور کیا نہیں ہے۔ لیکن یہ بالکل واضح طور پر قابل عمل منصوبہ ہے اور اس کے لیے مالی وسائل کا بندوبست کرنے میں ہمیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہو سکتا۔‘‘
دوسری جانب تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے آغاز ہی سے امریکی ممکنہ دباؤ نے اس کی ممکنہ تکمیل کو غیر یقینی کی فضا میں لپیٹ رکھا ہے۔ امریکی انتظامیہ بارہا کھلے عام پاکستان کو باور کرا چکی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے پر کام کرنے سے باز رہے اور اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے متبادل ذرائع استعمال کرے۔
اقتصادی تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں کسی بھی ملک کے لیے پاک ایران گیس پائپ لائن کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا آسان نہیں ۔ انہوں نے کہا،’’اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مالیاتی ادارہ ایران یا ایران کے مرکزی بینک سے ڈیل کرنا چاہتا ہے تو اس کو خطرہ یہ ہو گا کہ اس کے باقی دنیا میں جو آپریشن ہیں، ان پر امریکی پابندیاں لاگو نہ ہو جائیں۔ تو ایران گیس پائپ لائن کا تازہ تخمینہ جو ہے، 7.8 سے 8 ارب ڈالر تک ہے اس کے لیے موجودہ حالات میں مالی وسائل اکٹھے کرنا پاکستان اور ایران کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔‘‘
پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ دسمبر 2014 ء میں مکمل ہو گا۔ اس پائپ لائن کی لمبائی تقریباً 14 سو کلو میٹرہو گی جس میں سے ساڑھے گیارہ سو کلو میٹر طویل پائپ لائن ایرانی علاقے میں جبکہ باقی پاکستان میں ہو گی۔ منصوبے کے تحت ایران پاکستان کو 25 سال تک یومیہ 75 کروڑ کیوبک فٹ گیس فراہم کرے گا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں