پاک بھارت نفرت ختم کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ
24 ستمبر 2018واضح رہے کہ ماضی میں کچھ تنظیمیں پاک بھارت دوستی کے لیے کام کرتی رہی ہیں لیکن دونوں ممالک میں انتہا پسند عناصر کے عروج کے باعث ایسی امن پسند قوتیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ فلم ا ور ٹی وی کی معروف اداکارہ ثمینہ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ جنگ اتنی قابلِ نفرت چیز ہے کہ دونوں ممالک کو اس کا تصور بھی نہیں کرنا چاہیے: ’’عراق کو جنگ سے کیا مل؟ افغانستان نے جنگ سے کیا حاصل کیا؟ مشرقِ وسطیٰ کو جنگ نے کونسا فائدہ دیا؟ ہم کسی بھی صورت جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک میں غربت اپنی انتہا پر ہے۔ لوگوں کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے۔ روزگار نہیں ہے۔ زندگی کی بنیادی سہولیات نہیں ہیں تو ہم سب کو امن کے لیے کام کرنا چاہیے اوراگر ہمیں واقعی کوئی جنگ کرنی ہے تو دونوں ممالک کو مل کرغربت، جہالت، بے روزگاری، بھوک و افلاس اور سماجی برائیوں کے خلاف جنگ کرنی چاہیے۔‘‘
ناقدین کے خیال میں پاکستان اور بھارت میں اتنہا پسند قوتوں نے لوگوں کے ذہنوں کو اپنے پراپیگنڈے کے ذریعے جنگ کی طرف مائل کر دیا ہے۔ معروف گلو کار جواد احمد کے خیال میں اس پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بھی پالیسی ترتیب دینی چاہیے: ’’دونوں ممالک میں ذرائع ابلاغ کو جنگ کی ہولناکیاں دکھانا چاہیے۔ انہیں بتانا چاہیے کہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں جب بم گرائے گئے تھے تو کیا ہوا تھا۔ نئی نسل کو جنگ کی ہولناکیوں سے آگاہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے نصاب میں جنگ مخالف کتابیں شامل کرنی چاہییں اور دونوں ممالک کی عوام کو بتانا چاہیے کہ جنگ سے بھوک و افلاس میں مزید اضافہ ہوگا۔ مہنگائی غریب عوام کی اور کمر توڑے گی۔ بیماریاں عوام کو گھیریں گی۔‘‘
جواد احمد کا کہنا تھا کہ یہ افسوناک بات ہے کہ دونوں ممالک کے ذمہ دار قیادت بھی غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہی ہے: ’’پہلے عمران خان نے مثبت اشارہ دیا کہ مذاکرات شروع ہونے چاہییں لیکن بھارت کی طرف سے مودی صاحب نے اچھا پیغام نہیں دیا۔ بعد میں عمران خان کی طرف سے منفی بیان دیا گیا۔ دونوں ممالک کے قیادت کو فوراﹰ امن کے لیے کام کرنا چاہیے۔ امن پسند قوتوں کو دونوں ممالک میں متحد ہونا چاہیے اور جنگجویانہ سوچ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘
کئی فنکاروں کا خیال ہے کہ آج امن کی باتیں کرنے میں دونوں ممالک کو اس لیے دشواری ہو رہی ہے کہ ہم نے اپنے نصابوں میں جنگجوؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا۔ پاکستان میں جنرل ضیاء کے دور میں نصاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ہوئی جب کہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت نصاب اور تاریخ کی کتابوں کو تبدیل کر رہی ہے۔
معروف اداکارہ ثانیہ سعید نے پاک بھارت کشیدہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے اپنے نصاب کے ذریعے اپنے بچوں کو بتایا کہ جو لڑ نہیں سکتا وہ مرد نہیں۔ ہمارے سارے ہیرو حملہ آور اور جنگجو ہیں۔ ہم نے جنگوں کی تعریف میں قصیدے پڑھائے ہیں اور آج صورتِ حال یہ ہے کہ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر ہیں، جس سے صرف جنگجویانہ سوچ رکھنے والوں کو فائدہ ہوگا۔ میں نہ صرف جنگ کی مخالفت اس لیے کرتی ہوں کہ میں ایک فنکار ہوں بلکہ بحیثیت انسان بھی ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ اپنے نصاب کو تبدیل کر کے امن پسندی کا درس دینا چاہیے۔‘‘
ثانیہ سعید کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں ذرائع ابلاغ کو جنگ کی شان میں قصیدے نہیں کہنے چاہییں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک میں جنگجویانہ سوچ والے چھائے ہوئے ہیں، جس پر انہیں سخت تشویش ہے: ’’ہم عوام کے اصل مسائل غربت جہالت، بے روزگاری اور بھوک و افلاس کے بارے میں کب بات کریں گے۔ کیا جنگ سے یہ مسائل حل ہوں گے؟‘‘