پاک سفارت کاروں کی افغانستان میں حراست، تعلقات میں پھر تلخی؟
18 مئی 2017کئی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کے کوئی آثار نہیں ہیں کیونکہ ان خراب تعلقات کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے، جس کا اثر موجودہ پالیسوں پر پڑ رہا ہے۔
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف پختون دانشور ڈاکڑ سعید عالم محسود نے ان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان و افغانستان میں اس وقت تک تعلقات بہتر نہیں ہوں گے جب تک پاکستانی ریاست اپنا بیانیہ تبدیل نہیں کرتی۔
ڈاکڑ سعید عالم محسود نے مزید کہا ’’ ہم ’اسٹریجک ڈیپتھ‘ کی اب تک پالیسی پر کاربند ہیں اور آج بھی ہمارے جہادی اثاثے موجود ہیں، جو خطے کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ہماری فوج اور سویلین حکومت کا دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح بیانیہ نہیں ہے۔ آخر ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کیوں اسامہ ہمارے ملک سے برآمد ہوا؟ کیوں ملا اختر منصور ہمارے ملک میں مارا گیا؟ کیوں ہم نے ملا عمر اور دوسرے لوگوں کی حمایت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔‘‘
ڈاکٹر محسود کے مطابق آپریشن جبرالڑ، بنگال اور کارگل سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا ۔ اُن کے مطابق یہ صرف فوج کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ سویلین حکومت بھی دہشت گردی کے حوالے سے ابہام کا شکار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ’’کیا شہباز شریف نے طالبان اور القاعدہ سے درخواست نہیں کی تھی کہ پنجاب پر حملہ نہیں کیا جائے اور آج بھی پنجاب میں دہشت گردوں کی حمایت جاری ہے اور وہاں آپریشن نہیں ہونے دیا جاتا، ایسی صورت میں نہ پاکستان میں مستقل امن ہو سکتا ہے اور نہ ہی افغانستان میں۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’مجھے نہیں لگتا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہونے جارہے ہیں کیونکہ وجہ صاف ہے ہم اپنی اسٹریجک ڈیپتھ کے فلسفے سے جان نہیں چھڑا رہے اور نہ اپنے اثاثوں کو ختم کر رہے ہیں، تو ایسی صورت میں افغانستان سے ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔‘‘
دوسری جانب دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں بظاہر کشیدہ نظر ہونے والی صورتِ حال کے باوجودٹریک ٹو ڈپلومیسی چل رہی ہے اور اس کے اچھے نتائج آئیں گے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے جنرل اعوان نے کہا، ’’دیکھیں یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ سفارت کاروں کو روکا جاتا ہے اورا ن سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ بھارتی سفیر کو امریکہ میں روکا جاتا ہے اور پاکستانی سفیروں کو بھارت میں بھی روکا جاتا ہے۔ اب افغانستان میں یہ واقعہ ہوا ہے۔‘‘
اعجاز اعوان کے مطابق عموما حساس اداروں کو یا تو سفارت کاروں کی سرگرمیوں پر شک ہوتا ہے یا پھر وہ انہیں حراساں کر نے کے لئے ایسا کرتے ہیں، لیکن اس واقعے کے باوجود عوامی سطح اور سرکاری سطح پر رابطے جاری ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور اراکینِ پارلیمنٹ کے افغانستان کے دوروں کے باوجود بد قسمتی سے کابل حکومت نے مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے امید ظاہر کی ہے کہ معاملات بہتر ی کی طرف جائیں گے۔
اعجاز اعوان نے مزید واضح کیا کہ افغانستان کو یقین دلایا گیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت کسی بھی دہشت گرد گروہ کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور کابل حکومت نے افغانستان میں بھارتی موجودگی کے حوالے سے پاکستانی تحفظات دور کرنے کا وعدہ دے رکھا ہے۔ ان کے خیال میں جب رابطے بہتر ہوں گے تو تعلقات میں بہتری آئے گی۔
معروف دانشور اور تجزیہ نگار ایوب ملک نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’دنیا میں آپ پڑوسیوں سے کٹ کر نہیں رہے سکتے۔ افغانستان ہمارا چھوٹا بھائی ہے اور بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے ہمیں ان کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں تعلقات کی بہتری کے لئے خارجہ پالیسی مکمل طور پر سویلین حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے کیونکہ حکومت کی خواہش ہے کہ خطے میں نہ صرف کابل سے تعلقات بہتر بنائےجائیں بلکہ نئی دہلی سے بھی مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کئے جائیں اور سب کو پتہ ہے کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کے حق میں کونسی قوتیں نہیں ہیں۔