پاک چین اقتصادی راہداری: براہمداغ بگٹی سے خصوصی گفتگو
25 اپریل 2015ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنما براہمداغ بگٹی نے کہا کہ اس ڈیل سے صوبہ بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ سوئٹزرلینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اس رہنما کے بقول یہ ڈیل پاکستان اور چین کے مابین نہیں بلکہ ’صوبہ پنجاب اور چین‘ کے مابین ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقتصادی راہداری کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے صوبہ بلوچستان کو ایک ’کالونی بنانے‘ کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔
بلوچستان کے مقتول قوم پسند رہنما اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ کا اصرار ہے کہ بلوچ رہنما کسی کو ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ صوبہ بلوچستان کے وسائل اور لوگوں کا استحصال کیا جائے۔ پاکستان اور چین کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کے بارے میں اس علیحدگی پسند رہنما کے خیالات جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو کے کچھ اقتباسات:
ڈی ڈبلیو: حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کے تحت پاکستان کی اقتصادی صورتحال بہت بہتر ہو جائے گی۔ تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اس ڈیل میں گوادر کی اہمیت بہت زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ آپ کے خیال میں کیا یوں صوبہ بلوچستان کی مجموعی ترقی بھی ممکن ہو سکے گی؟
براہمداغ : ماضی میں بلوچستان میں شروع کیا گیا کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ ایسا نہیں ہے، جس سے اس صوبے یا اس کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچا ہو۔ میرے خیال میں اس مرتبہ بھی نتائج کچھ مختلف نہیں ہوں گے۔ ہم کئی دہائیوں سے اسلام آباد حکومت سے شکایات کر رہے ہیں کہ یہاں ترقیاتی منصوبہ جات شروع کرنے سے پہلے بلوچستان کی مقامی آبادی سے نہ تو رائے لی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے منصوبے بلوچستان کی ترقی کے لیے یا وہاں کے لوگوں کی غربت ختم کرنے کے لیے شروع نہیں کیے جاتے بلکہ یہ اسلام آباد میں حکمرانوں کے مفادات کی خاطر شروع کیے جاتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو: بلوچستان کی صوبائی حکومت نے تحفظات ظاہر کیے ہیں کہ پاکستان اور چین کے مابین اس اقتصادی راہداری کے منصوبے کے لیے اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
براہمداغ : سیدھے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ڈیل پاکستان اور چین کے مابین ہے ہی نہیں بلکہ یہ معاہدہ ’صوبہ پنجاب اور چین‘ کے مابین طے پایا ہے۔ ہمیں اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ پنجاب کے حکمرانوں کو اجازت ہونا چاہیے کہ وہ جو چاہیں کریں لیکن ہم چین اور پنجاب کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ بلوچ عوام اور بلوچستان کے وسائل کو صرف اپنے ہی مفادات کے لیے استعمال کریں۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری ہے۔ لوگوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو رپورٹنگ کے لیے بلوچستان اور گوادر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس صورتحال میں کسی ترقیاتی منصوبے کی شفافیت کو کس طرح جانا جا سکتا ہے؟
ڈی ڈبلیو: کچھ ناقدین کے مطابق اس اقتصادی راہداری کو کامیاب بنانے کے لیے بلوچستان میں فوجی آپریشن میں تیزی آ سکتی ہے۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟
براہمداغ: میرے خیال میں اس ڈیل کو کامیاب بنانے کی کوشش میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں وسیع پیمانے پر ہوں گی۔ اس صوبے سے جڑے مالیاتی فوائد کے حصول کے لیے اسلام آباد حکومت ممکنہ طور پر پہلے سے جاری اپنی عسکری کارروائیوں میں شدت لا سکتی ہے۔ وہ ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی بین الاقوامی اور چینی کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے ایسا کریں گے۔ وہ پاکستان اور چین کے مابین اقتصادی راہداری نامی اس ڈیل کے خلاف پرامن احتجاج اور مظاہرے بھی نہیں کرنے دیں گے۔ کیا پنجاب، کراچی اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی نہیں ہو رہی؟ کیا وہاں بھی لوگوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے، جیسا کہ بلوچستان میں ہو رہا ہے؟ نہیں! بلوچستان کے علاوہ کیا دیگر صوبوں میں بھی روزانہ بنیادوں پر لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوتی ہیں؟ نہیں!
صوبہ پنجاب میں طالبان کے مدرسے چل رہے ہیں۔ کیا اسلام آباد نے ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہی ملے گا۔ کسی ملک میں محروم اور مراعات یافتہ طبقوں کے لیے دو نظام اور مختلف قوانین نہیں ہو سکتے۔ ہم بلوچستان کی صوبائی حکومت سے اس بات کی توقع نہیں کر سکتے کہ وہ بلوچ عوام کے ایماء پر وفاقی حکومت سے کوئی مذاکرات کرے گی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ بلوچستان کی اسمبلی میں ممبران کا چناؤ کس طرح ہوتا ہے۔ یہ ایک باعث شرم عمل ہے۔
ڈی ڈبلیو: وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اقتصادی راہدری کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں میں بلوچستان کے اہم شہروں کو نظر انداز کر دیا جانا چاہیے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
براہمداغ: میرے خیال میں انہوں نے یہ اس لیے کیا کہ ان کے ذہنوں میں موجود خود ساختہ سکیورٹی خدشات دور ہو سکیں۔ لیکن بلوچستان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر انہوں نے اس صوبے کے اہم شہروں میں بھی منصوبے شروع کیے، تو اس سے بھی مقامی آبادی کو خوشحالی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ مثال کے طور پر پاکستان کی وفاقی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے ڈیرہ بگٹی میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا ہے تاکہ لوگوں کی اقتصادی خوشحالی ممکن بنائی جا سکے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس دعوے کے برعکس پیراملٹری فورسز اسلام آباد کے مفادات کے تحفظ کے لیے منحرف افراد پر بمباری کر رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو: لیکن اسلام آباد کا کہنا ہے کہ بلوچ رہنما اس صوبے میں اقتصادی ترقی کا راستہ روکنے کی کوشش میں ہیں؟
براہمداغ: میں یہ پوچھتا ہوں کہ اسلام آباد حکومت نے ہمارے لوگوں کو کیا دیا ہے۔ کچھ کلرکی کی ملازمتیں صرف۔ ہم صرف گیس پائپ لائنوں کے محافظ نہیں بننا چاہتے، ہمیں اس صوبے سے پیدا ہونے والے وسائل سے اپنا جائز حصہ چاہیے۔ چونکہ ہم اپنے مطالبات پر قائم ہیں، اس لیے وفاقی حکومت اس صوبے میں کام کے لیے پنجاب سے ورکرز کو بلا رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو: کسی بھی دوسری بڑی پارٹی نے چین کے ساتھ طے پانے والی اس ڈیل پر کوئی بڑے اعتراضات نہیں کیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اس تناظر میں تنہا ہیں؟
براہمداغ: بلوچستان ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا مفاد صرف یہی ہے کہ اس صوبے کے وسائل کا استحصال کیا جائے۔ پنجابی اشرافیہ بلوچ عوام کے بغیر ہی بلوچستان کے وسائل چاہتی ہے۔
ڈی ڈبلیو: چونکہ آپ اس منصوبے کے خلاف ہیں، اس لیے آپ اس پر علمدرآمد کو روکنے کی خاطر کیا حکمت عملی رکھتے ہیں؟
براہمداغ: میں سیاسی حل پر زور دیتا ہوں۔ پاکستانی فوج نے جب میرے دادا اکبر بگٹی کو ہلاک کیا تھا تو اس وقت بھی میں ان تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کی کوشش میں تھا۔ ہم بلوچستان میں جاری استحصال کے خلاف عالمی سطح پر ایک مہم شروع کریں گے۔ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے صوبے اور عوام کو صرف اپنے ہی مفادات کے لیے استعمال کرے۔