ستمبر کو دوسرے ہفتے میں پرائیویٹ سکولز کے حوالے سے محکمہ تعلیم کا ایک اعلان سامنے آیا، جس کے مطابق تمام نجی سکولز پر چار پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ پہلی پابندی یہ کہ کوئی بھی سکول طلبہ کو مخصوص دکانوں سے کتب، یورنیفارم اور کاپیاں خریدنے پر مجبور نہیں کرے گا۔ دوسری پابندی یہ کہ مدرزڈے، فادرز ڈے، فلاور ڈے یا ان سے ملتی جلتی تقریبات کے لیے بچوں سے کھانے کی اشیاء یا رقم کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ تیسری پابندی، سہہ ماہی پیشگی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔ فیس کی عدم ادائیگی پر نہ تو طالب علم کو سزا ملے گی نہ ہی سکول سے نام خارج نہیں کیا جائے گا۔ چوتھی پابندی،کوئی بھی سکول طلبہ کا یورنیفارم پانچ سال سے پہلے تبدیل نہیں کر سکے گا، تاخیر پر جرمانے کی وصولی ممنوع ہوگی۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے یہ اعلان نہایت خوش آئند ہے کیونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ماہانہ فیس پہلے ہی زیادہ ہوتی ہے دوسری طرف سکول کی برینڈنگ والی کاپیز بازار میں ملنے والی عام کاپیز سے دو گنا زیادہ مہنگی ہوتی ہیں اور اگر طلبا سکول کے مونوگرام کے علاوہ کوئی کاپی لے کر جائیں تو ادارہ وہ کاپیاں وغیرہ قبول نہیں کرتا۔ اسی طرح تعلیمی سال کے دوران یونیفارم اور سپورٹس کٹ کا بار بار تبدیل ہونا والدین کے لیے ایک اضافی بوجھ ہے۔ محکمہ تعلیم نے ان فنکشنز اور غیر ضروری پابندیوں سے والدین کو تو آزاد کروا دیا ہے لیکن پرائیویٹ سکولز کا عملہ خصوصا اساتذہ جس استحصال کا شکار ہیں اس پر بات نہیں کی جاتی۔
تعلیم چونکہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ کامیاب کاروبار ہے تبھی والدین کی سنی بھی گئی ہے کیونکہ پیرنٹ باڈی کی حیثیت ایک کلائنٹ کی ہے، جہاں سے کاروبار کو منافع ملتا ہے اس لیے ان کی رائے اور مطالبے ہمیشہ غالب رہتے ہیں۔ جبکہ ٹیچرز کی حیثیت ایک مزدور کی ہے جو کہ اس کاروبار کا محتاج ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریوں کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی اس لیے اکثر کفالت کے بوجھ تلے دبے اساتذہ پرائیویٹ سکولز کی ظالمانہ پالسیوں پر سمجھوتہ کر جاتے ہیں۔
گلی گلی کھلنے والے فرنچائز سکول مافیا نے پرائیویٹ سکولز میں اساتذہ کے لیے نوکریوں کا وسیلہ تو پیدا کیا ہے لیکن اساتذہ کی عزت و معاشی معیار کوملازمتی سمجھوتوں پر وار دیا ہے۔
کچھ دن قبل ایک پرانی کولیگ نے رابطہ کیا جو گھر کی واحد کفیل ہے اور اس کے بچوں کی فیس اس کی تنخواہ سے کٹتی ہے۔ اب سکول کی گرمیوں کی چھٹیوں کے حوالے سے پالیسی ہے کہ جون کی فیس دیں گے، تو جون کا سمر پیک (چھٹیوں کا کام) ملے گا، جولائی کی فیس پر جولائی کا کام، لیکن اساتذہ کو تنخواہ ستمبر میں ملے گی۔ کچھ فرنچائزز میں اساتذہ کو گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ سرے سے ملتی ہی نہیں یا اگلے جنوری اور فروری کی تنخواہ کے ساتھ ملتی ہے۔ اس دوران اگر وہ ٹیچر ریزائن کرجائے تو تنخواہ پہ فاتحہ لازم ہے۔ اس کولیگ نے التجا کی کہ اس کے بچوں کے نام سکول سے خارج کر دیے جائیں گے کیونکہ تنخواہ نہ ملنے کے سبب وہ اپنے بچوں کی چھٹیوں کی فیس کی ادائیگی نہیں کر پائے گی اور کسی نئے سکول میں داخلے کی صورت وہ ایڈمیشن، یورنیفارم، کتابوں کا خرچ بالکل نہیں برداشت کر سکتی۔ صرف دو منٹ نکال کر سوچیں کہ ہمارے اساتذہ، جو دوسروں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں انہیں اپنی اولاد کی فیس اور تعلیم کے لیے اوروں کے سامنے دامن پھیلانا پڑے تو کیسا لگے گا؟ کچھ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو کہ گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے اپنے نان کنفرم ٹیچرز کو نوکری سے برخاست کر دیتے ہیں کہ تنخواہ نہ دینی پڑے اور چھٹیوں کے بعد نئے ٹیچرز ہائر کر لیتے ہیں اور یہ کام کووڈ کے بعد اچھے تعلیمی ادارے بھی کررہے ہیں۔
بڑے تعلیمی اداروں میں ورک لوڈ زیادہ ہوتا ہوگا لیکن ان کی ایچ آر پالیسیز نہایت شفاف ہوتی ہیں۔ وہ کانٹریکٹ سائن کرواتے وقت آپ کو تمام باریکیاں سمجھا دیتے ہیں۔ نیز نئی ہائرنگ کے لیے باقاعدہ اورینٹیشن سیشن رکھا جاتا ہے، پروبیشن پیریڈ، ریزائن، کنفرمیشن اور بچوں کی فیس کے بارے میں پالیسی نہایت واضح ہوتی ہے۔ گنتی کے کچھ سکولز ہیں، جو ورکنگ مددرز (ٹیچرز) کو معاوضے سمیت میٹرنٹی لیوز اور سکول کالج میں ہی ڈے کیئر کی سہولت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں کام کرنے والے اساتدہ دہائیوں سے ان ناموں سے جڑے رہتے ہیں لیکن فرنچائز مافیا میں کانٹریکٹ لیٹر، اساتذہ کے بچوں کی فیس ڈسکاؤنٹ، تنخواہ سے سکیورٹی کی کٹوتی، ٹیچر ورک لوڈ وغیرہ کی کوئی پالیسی موجود ہی نہی۔ اس المیے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اکثریت فرنچائز چلانے والے کاروباری حضرات ہیں، پیسہ تھا نیا کاروبار کرنا تھا کسی نے مشورہ دیا کہ فلاں تعلیمی ادارے کی فرنچائز لے لو، اب چاہے بندہ پراپرٹی ڈیلر ہے یا گارمنٹس کے کاروبار سے وابستہ ہے (پراپرٹی ڈیلرز اور گارمنٹس کاروبار سے وابستہ لوگوں سے معذرت، یہ صرف مثال دینے کو لکھا) وہ فرنچائز لے کر سکول ویسے ہی چلائے گا جیسے دکان چلائی جاتی ہے۔ چاہے اس کا اپنا تعلیمی ریکارڈ کچھ بھی نہ ہو۔ جہاں یہ تعلیمی نظام کی تباہی ہے کہ ہر مالدار بندہ جس کا شعبہ تعلیم سے دور دور تک کا تعلق نہ ہو وہ تعلیمی ادارے کا ہیڈ بن جاتا ہے۔ دوسرا المیہ اساتذہ کی اپنی کمزوریاں ہیں کہ نہ تو پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ کی کوئی یونین ہے نہ کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہے، جہاں اساتذہ کے حقوق کے لیے کوئی باقاعدہ حکمت عملی وضع کی جائے اور تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس پر عمل کرنے کے پابند بھی ہوں۔ سکول ایک ٹیچر کو فائر کرتے ہیں تو ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اس ایک نوکری کے لیے پچاس اور امیدوار سامنے آجائیں گے۔ جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے وہ آئس برگ کی ٹپ بھی نہیں۔ ان اداروں کے اندرونی تنظیمی ڈھانچے پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سفاکانہ حد تک ناقابل برداشت ہیں۔ پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ کے معاشی اور سماجی استحصال کو روکنے کے لیے ان فرنچائزز کو پالیسیوں کا پابند بنایا جائے کہ سماج کے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے والے ان معلموں کو اپنی اولاد کی تعلیم اور کفالت کے لیے کسی اور کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ یہ اساتذہ پر احسان نہیں ہے ان کا حق ہے جس سے مسلسل غفلت برتی جارہی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔