پوپ امن کا پیغام لیے آرمینیا پہنچ گئے
24 جون 2016پوپ فرانسس آرمینیا کے قتل عام کے لیے خود بھی ’نسل کُشی‘ کا لفظ استعمال کر چکے ہیں۔ تاہم اب ان کی زیادہ توجہ اس علاقے اور دنیا کے دیگر حصوں میں مسیحیوں کے خلاف ہونے والے جبر اور مظالم پر ہے۔
پاپائے روم پورے مشرق وُسطیٰ میں داعش کی طرف سے مسیحیوں کے قتل کی اکثر و بیشتر مذمت کرتے رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف بلا تفریق حملوں کے متاثرین دراصل ’شہید‘ ہیں۔ حال ہی میں ان کا کہنا تھا کہ جب مسیحیوں کے قتل کی بات ہو تو وہ ’نسل کُشی‘ کی بجائے ’شہادت‘ کے لفظ کو فوقیت دیتے ہیں۔
پوپ فرانسس جمعہ 24 جون کی شام کو آرمینیا کے دارالحکومت یریوان میں واقع صدارتی محل میں ایک خطاب کر رہے ہیں، جس میں صدر سرژ سارکیسیان کے علاوہ دیگر آرمینیائی حکام بھی شریک ہیں۔ پوپ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں آرمینیائی باشندوں کے ایک صدی قبل ہونے والے قتل عام کے لیے ایک بار پھر ’نسل کشی‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ تاہم یہ اصطلاح ان کے خطاب کے تیار شدہ متن میں شامل نہیں تھی۔ اس پر تُرکی کی جانب سے کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس پوپ کی جانب سے یہ اصطلاح استعمال کرنے پر ترکی نے ویٹیکن سے اپنا سفیر واپس بُلا لیا تھا۔
پوپ فرانسس جب آج سہ پہر آرمینیائی دارالحکومت یریوان پہنچے تو ان کا استقبال صدر کے علاوہ اورینئنٹل آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ کاریکین ثانی نے کیا۔ پوپ فرانسس جب موٹرکیڈ میں روانہ ہوئے تو بچوں نے ان کے لیے خیر مقدمی نعرے لگائے۔ انہوں نے اطالوی زبان میں تحریر شدہ پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا کہ ’آرمینیا پوپ فرانسس کو خوش آمدید کہتا ہے‘‘۔
پوپ فرانسس اپنے چار روزہ دورہٴ آرمینیا کے دوران آرمینیا میں ’نسل کشی کی یادگار‘ کا دورہ کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ ترکی کے ساتھ آرمینیا کی سرحد پر، جو آج کل بند ہے، امن کی نشانی کے طور پر ایک فاختہ بھی چھوڑیں گے اور کاریکین ثانی کے ساتھ ایک دعائیہ تقریب میں امن کی دعا بھی کریں گے۔
ویٹیکن طویل عرصے سے آرمینیا کا حامی چلا آ رہا ہے۔ تین ملین آبادی کی حامل اس ریاست کے زیادہ تر شہری آرتھوڈوکس مسیحی ہیں۔ پوپ فرانسس نے گزشتہ برس جب آرمینیائی باشندوں کے 1915ء میں ہونے والے قتل عام کو 100 سال مکمل ہونے پر ایک خصوصی دعائیہ تقریب میں اس قتل عام کے لیے نسل کشی کا لفظ استعمال کیا تو آرمینیا کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔