پہلے جینیاتی تبدیلیاں اور پھر کلوننگ، انتہا کیا ہو گی؟
25 جنوری 2019جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بائیو میڈیکل مقاصد کے لیے ایک جینیاتی تبدیل شدہ بندر کے ایک ساتھ کئی کلون تیار کیے گئے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں جینیاتی ایڈیٹنگ کے طاقتور ہتھیار سے زندگی کا ’بلیو پرنٹ‘ دوبارہ لکھا جا سکتا ہے۔
چینی سائنسدانوں کے مطابق اس تحقیق کو وسعت دیتے ہوئے مستقبل میں انسانوں پر بھی آزمایا جا سکتا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق مزید تحقیق سے انسانوں میں نیند نہ آنے کی بیماری کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ یہ بیماری نفسیاتی دباؤ اور تحلل عصبی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
دوسری جانب اس پیش رفت کے بعد طبی تحقیق میں ’اخلاقی حدود‘ کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوگا۔ چین کے سرکاری میڈیا پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ تحقیق بین الاقوامی اخلاقی معیارات کے مطابق تھی اور جانوروں پر کی گئی ہے۔‘‘ چین کے اس اعلان کے بعد ان عالمی افواہوں کی بھی تقویت ملی ہے، جن کے مطابق چین بچوں میں جینیاتی تبدیلیاں کرنے کا خفیہ پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔ تازہ تحقیق کے حوالے سے دو آرٹیکل ’نیشنل سائنس ریویو جرنل‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ ان آرٹیکلز میں ایسے تجربات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جو شنگھائی میں واقع چینی اکیڈمی آف سائنس میں کیے گئے تھے۔
گزشتہ برس نومبر میں بھی ایک چینی سائنسدان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے دنیا میں پہلی مرتبہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بچوں کی پیدائش میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس وقت نیوز ایجنسی اے پی کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین میں ایسی جڑواں بہنوں کی پیدائش ہوئی ہے، جن کے ڈی این اے میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔
اس طرح کی جین ایڈیٹنگ پر امریکا اور کئی دیگر مغربی ممالک میں پابندی عائد ہے کیوں کہ ڈی این اے میں کی جانے والی تبدیلیاں اگلی نسل تک منتقل ہو سکتی ہیں اور ان تبدیلیوں سے دیگر جینز کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ متعدد سائنسدانوں کے خیال میں یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے انسانوں پر آزمانا انتہائی غیر محفوظ ہے۔
گزشتہ برس برطانوی طبی ماہرین پر مشتمل پینل برائے اخلاقیات نے کہا تھا کہ مستقبل میں پیدائش سے پہلے ہی بچوں کے جینز میں تبدیلیاں کرنے اور انہیں بہتر بنانے کی اجازت فراہم کی جا سکتی ہے۔ بائیو اخلاقیات پر کام کرنے والی برطانیہ کی نفیلڈ کونسل نے کہا تھا کہ اگر کسی شخص کی فلاح کا معاملہ ہو اور اسے معاشرتی سطح پر ناہمواری، تقسیم اور امتیازی سلوک سے بچانا مقصود ہو تو ایسے کسی بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے جینز میں تبدیلیاں لانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
تاہم اس پینل کی سربراہی کرنے والی اور برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں قانون اور اخلاقیات کی پروفیسر کیرن یونگ کا زور دیتے ہوئے یہ کہنا بھی تھا، ’’جینز میں تبدیلیاں کرتے ہوئے مستقبل کی نسل کے کردار پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
ناقدین کا خبردار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی اجازت نامہ فراہم کرنے کا عمل ایک برتر انسان پیدا کرنے کے راستے ہموار کر سکتا ہے۔ قبل از پیدائش، جس بھی بچے کے جینز میں تبدیلی لائی جائے گی، اس کو باقی ماندہ انسانوں پر برتری حاصل ہو جائے گی۔