پیرس حملوں کے مشتبہ ملزم کو پولیس نے روکا تھا، رپورٹ
16 نومبر 2015جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ پیرس حملوں کے ایک اہم مطلوب ملزم صالح عبدالسلام کو فرانس میں دیکھا گیا ہے۔ پیر کے دن جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق فرانسیسی پولیس نے شمالی پیرس میں اس مشتبہ شخص کی گاڑی کو روکا، اس کی تلاشی لی اور پھر اسے جانے دیا۔
اتوار کے دن ہی بیلجیم حکام نے پیرس حملوں میں ملوث ہونے کے شبے میں چھبیس سالہ عبدالسلام کے بین الاقوامی وارنٹ جاری کر دیے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ عبدالسلام کے اکتیس سالہ بھائی براہیم عبدالسلام نے جمعے کے دن باتاکلاں تھیٹر کے نزدیک ہی خود کش حملہ کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ فرانسیسی شہریت رکھتا تھا جبکہ کچھ عرصے سے بیلجیم میں سکونت پذیر تھا۔
ان کا تیسرے بھائی محمد عبدالسلام برسلز میں گرفتار کیا جا چکا ہے، جس سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تینوں بھائی فرانسیسی خفیہ اداروں کی فائلز میں شامل نہیں تھے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق فرانس اور بیلجیم کے سکیورٹی اداروں نے مشتبہ افراد کے خلاف اپنی کارروائی تیز تر کر دی ہے۔ ان دونوں ممالک میں مشتبہ افراد کے گھروں پر چھاپے مارے جانے کا عمل بھی جاری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ فرانس میں ڈیڑھ سو مقامات پر چھاپے مارے جا چکے ہیں۔
پیرس حملوں کے حوالے سے کی گئی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جمعے کی رات پیرس میں ہوئے حملوں میں جنگجوؤں کی تین مختلف ٹیموں نے خونریز کارروائیاں کیں۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 129 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ تین سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔
طبی حکام نے بتایا ہے کہ کم از کم اسّی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ شام اور عراق میں سرگرم انتہا پسند گروہ داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
دوسری طرف پیرس حملوں کے بعد عالمی برادری نے فرانس کے ساتھ بھرپور اظہار یک جہتی کیا ہے۔ جرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک کے علاوہ امریکا نے بھی کہا ہے کہ وہ ان حملوں میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے پیرس کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے جی ٹوئنٹی سمٹ میں خبردار کیا کہ واشنگٹن اب داعش کے خلاف اپنی عسکری کارروائیوں میں مزید تیزی لائے گا۔ دریں اثناء فرانسیسی جنگی طیاروں نے شام میں ان جہادیوں کے خلاف تازہ حملے بھی کیے ہیں۔