پیمرا : گلے ملنا اپنی روایت نہیں ہے، گلے کاٹنے کی بات اور ہے
30 اکتوبر 2021لگتا یہ ہے کہ پوری قوم کو ارطغرل غازی پر لگا کر ہمارے حکام خود دیوار کی طرف منہ کرکے کچھ اچھا سا دیکھنے میں مشغول ہوگئے تھے۔
ارطغرل سیریز کے مافوق البھڑک مناظرانہوں نے بچشمِ خود دیکھے ہوتے تو گلے ملنے والے مناظر پر پابندی لگاتے وقت ارطغرل کی مثال نہ دیتے۔ ارطغرل کی مثال تو تب ہی دی جا سکتی ہے جب کردار گلے ملتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہوں۔
جھوٹ موٹ کے گلے ملنے پر ڈائریکٹر کو سرزنش کرتے ہوئے کہنا چاہیے کہ جاؤ پہلے ستر بار ارطغرل اور حلیمہ سلطان کے گلے ملنے والا منظر دیکھو۔ گلے ملتے وقت ارطغرل کی طرح بانہیں ٹھیک سے بھری ہوئی ہونا چاہییں اور دیکھتی آنکھ کو محسوس ہونا چاہیے کہ گلے ہی نہیں مل رہے، دو دل بھی مل رہے ہیں۔
صرف گلے ملنے کے لیے ہی نہیں، گلے سے آگے کے امتحان میں پورے نمبر لینے کے لیے بھی ارطغرل سیریز ہی دیکھنا چاہیے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، ارطغرل غازی جب حلیمہ سلطان کے لبِ لعلیں پر انگلیاں پھیرتے ہیں تو لگتا ہے باغِ عدن میں دھیرے دھیرے سے کلیاں چٹخارہے ہیں۔
فرنود عالم کا یہ بلاگ بھی پڑھیے
غالب کے ہاں زلف سر کرنے کی حسرت ہی ملتی ہے، غازی کے ہاں تو اس کی زندہ و تابندہ تصویر مل جاتی ہے۔ گود میں سر رکھ کے جب قبلہ بھلے سخن کہتے ہیں تو لگتا ہے خواب گاہ کو دھونی دینے کے لیے کسی نے جلتے ہوئے لوبان میں میر کا دیوان جھونک دیا ہے۔
اتنی بار تو بلوچستان کے انتخابات میں کبھی مہریں نہیں لگیں جتنی بار اس ڈرامے میں گالوں پر ہونٹوں کا لمس درج ہوا ہے۔ باقی کرداروں کے تال بھی جب تال سے تال ملتے ہیں تو بخدا چنگاریاں پھوٹتی ہیں۔
ارطغرل غازی سمیت یہ سارے کردار باقی کے ڈراموں میں کیا کچھ کر رہے ہوتے ہیں، وہ تو رہنے ہی دیجیے۔ ہونٹوں پر انگلی نہیں پھیرتے۔ واللہ مشتاق یوسفی صاحب کے تخمی آم یاد آجاتے ہیں۔
ہمارے ایک استاد پیمرا کی ہدایات سے سر تا سر متفق ہیں۔ ارطغرل غازی والا رومانوی منظر نامہ جب میں نے ان کے سامنے پیش کیا تو بولے، دیکھو برخوردار دو باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ارطغرل سیریز کے مناظر میں ایک طرح کا اعتدال ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں صرف گلے ملنے والے فحش مناظر ہی ہوں، اس میں گلے کاٹنے والے ایمان افروز مناظر بھی ہیں۔
ہمارے ڈراموں میں آپ گلے کاٹنے والا ایک منظر دکھا سکتے ہیں؟ دیکھیں کسی ایک انتہا پر کھڑے ہوجانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔ یہ کیا کہ ہر سیریل میں بس گلے پہ گلے ہی ملے جا رہے ہیں۔ کیا یہ اذیت پسند ناظرین کے ذوق کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟
دوسری بات یہ ہے برخوردار کہ ہمارا کلچر ترکوں کے کلچر سے ذرا مختلف ہے۔ ہم مشرقی تہذیب کے لوگ ہیں ہمارے کلچر میں گلے ملنے کی گنجائش ذرا کم ہی نتاریخ کے گھنٹہ گھر پر بیٹھا گیانی دھیانیکلتی ہے۔
فرنود عالم کا یہ بلاگ بھی پڑھیے
استاد کی بات سن کر میں کچھ دیر کو سوچ میں پڑ گیا۔ غور کیا تو احساس ہوا کہ استاد کی بات میں دم ہے۔ محبت، پیار، بوسے، مصافحے، معانقے، اظہار اور اقرار کب سے ہمارا کلچر ہوگیا۔ ہمارا کلچر تو تشدد ہے، دھونس ہے، تسلط ہے، مداخلت ہے، ممانعت ہے، تعاقب ہے اور تفتیش ہے۔
تھوڑا سا آگے بڑھیں تو چہروں پر تیزاب کا چھڑکاؤ اور غیرت کے نام پر قتل بھی اس کلچر میں شامل ہو جاتا ہے۔ عورت کا حق دبانا عورت کے لیے مواقع محدود کر دینا اور ونی میں بچی کو ہار دینا، یہی تو کلچر ہے ہمارا۔
یہ محض ایک بات نہیں ہے، یہ زندہ تاریخ ہے جس کی گواہی ہماری معاشرتی، سیاسی اور آئینی تاریخ دیتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ملکی قوانین کا جائزہ لیتا ہے اور سفارشات مرتب کرتا ہے۔ اس ادارے کے رجالِ کار تمام مکاتبِ فکر کے چیدہ اور چنیدہ علمائے کرام پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اس ادارے کی سال 2016 کی سفارشات کبھی نکال کر پڑھیے گا۔ یہ سفارشات مرد کو عورت پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کا شرعی، آئینی اور قانونی حق دیتے ہیں۔ بات کونسل تک ہوتی تو کچھ بات تھی، اس کے دفاع میں کافی ذہین لوگوں نے آگے بڑھ کر کہا، کونسل نے ہلکی پھلکی بھوک میں ہلکا پھلکا ٹک کھانے کی ہی تو بات کی ہے۔ لوگ پیالی میں طوفان تو ایسے اٹھا رہے ہیں جیسے کونسل نے چائے میں پورا بسکٹ ڈبونے کی بات کردی ہو۔
سال 2015 سے اس ملک میں ایک تحریک چلی ہوئی ہے کہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں شادی کرنا کسی بھی بچی کے وجود اور اس کے جذبات و احساسات کے ساتھ زیادتی ہے۔ شادی کے لیے حد سے حد عمر اٹھارہ برس ہونا چاہیے۔
پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں یہ بل کئی بار پیش ہوچکے ہیں، ہر بار اس کی راہ میں خود اسمبلی کے ارکان اور اسلامی نظریاتی کونسل حائل ہوجاتی ہے۔ قومی اسمبلی میں پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک فاضل وزیر نے کہا، کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ بل ہماری روایات اور ہمارے کلچر کے سراسر خلاف ہے۔
ابھی پچھلے دنوں کی ہی بات ہے کہ پارلیمان میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے ایک بل پیش کیا گیا۔ بل پیش کرنے والوں کو لگتا تھا کہ یہ بل ٹھنڈے پیٹوں منظور کرلیا جائے گا، مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی غیور لوگ اُچھلے اور سورج کو پکڑ کے سوا نیزے پر لے آئے۔
مشرقی تہذیب کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے مولانا عبدالغفور حیدری نے فرمایا، ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو یہ حق دے دوں کہ وہ تھانے جا کر اپنے باپ یا بھائی کے خلاف رپورٹ درج کرائے۔ یہ تو ہماری تہذیب اور ہمارے کلچر کو تباہ کرنے والی باتیں ہے۔ یعنی حیدری صاحب آسان بھاشا میں یہ کہہ رہے تھے کہ ظالم کو ظلم کرنے کا حق دینا تو سمجھ آتا ہے مگر مظلوم کو شکایت کا حق دے دیا جائے یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے؟
فرنود عالم کا یہ بلاگ بھی پڑھیے
پیمرا کی پابندی کے برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ فردوس جمال جیسے مستند اور کلاسیکی فن کار نے بھی اس کے حق میں کچھ چبائے ہوئے الفاظ خرچ کردیے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فرمانے لگے، چونکہ ہمارے کلچر میں ماں باپ اپنے بچوں کے سامنے گلے نہیں ملتے، لہذا ڈراموں میں بھی ہمیں ایسے مناظر نہیں دکھانے چاہییں۔
مثال دے کر اپنی بات کو مزید سمجھاتے ہوئے فرمانے لگے، دیکھیں جب آپ کو حاجت پیش آتی ہے تو واش روم جاتے ہیں نا؟ ایسا تو نہیں ہوتا نا کہ آپ کمرے میں بیڈ پر بیٹھ کر حاجت کرنا شروع کردیں۔ اللہ اللہ ! فردوس جمال صاحب نے جوتے کے پیوند میں آفتاب کی کرن لگا دی۔ ذرا غور کیجیے، قبلہ نے جو مثال دی ہے کتنی بے مثال ہے۔
فردوس جمال صاحب کی بات سے اختلاف کرنا بہت مشکل ہے۔ سامنے کے سچ کو بھی بھلا کوئی جھٹلائے سکتا ہے؟ یہ بالکل سچ ہے کہ ہمارے کلچر میں شوہر بچوں کے سامنے بیوی سے گلے نہیں ملتے۔ بچوں کے سامنے وہ صرف تھپڑ مارتے ہیں اور گالم گفتار کرتے ہیں۔
اب تھپڑ مارنا حاجت جیسا کوئی پوشیدہ فریضہ تو ہے نہیں کہ کنڈی لگا کر بیڈ روم میں انجام دیا جائے۔ بدگوئی اور مار دھاڑ میں شرم کیسی؟ یہی تو وجہ ہے کہ پیمرا نے گلے ملنے والے مناظر پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ تھپڑ مارنے، ہذیان بکنے، دھکا دینے اور بالوں سے پکڑ کے گھسیٹنے والے مناظر دکھانے کی آزادی برقرار رکھی ہوئی ہے۔