عمران خان کی طاقت کا مظاہرہ نواز شریف کے شہر لاہور میں
22 ستمبر 2024لاہور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جلسے کے لیے ایک ایسی جگہ کی اجازت دی گئی جس کے بارے میں پرانے لاہوریے بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں ہے۔ پی ٹی آئی جلسے کے لیے تین گھنٹے کے اجتماع کی اجازت جلسے سے بیس گھنٹے پہلے دی گئی۔ جلسہ گاہ وسطی لاہور سے تقریباﹰ نوے منٹ کی مسافت پر شہر سے باہر گندگی کے ڈھیروں اور خاردار جھاڑیوں میں گھری ہوئی ایک ایسی جگہ تھی جہاں تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔
پاکستان تحریک انصاف نے الزام لگایا ہے کہ جلسے سے پہلے پنجاب کے مختلف شہروں میں اس کے کارکنوں کی گرفتاری کے لیے کریک ڈاون کیا گیا۔ ادھر لاہور میں جلسے سے پہلے جگہ جگہ پولیس نے ناکے لگائے رکھے۔ لاہور میں داخلے کے پوائنٹس کو جلسے سے پہلے بند کیا گیا، اسلام آباد لاہور موٹروے بھی جزوی طور پر بند کی گئی۔ جلسہ گاہ کو جانے والے راستے کنٹینر لگا کر بند کر دیے گئے تھے۔ اس کے باوجود لوگ کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر جلسے میں شریک ہوئے۔
'چیف جسٹس کی ملازمت میں توسیع نامنظور'
پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈا پور اور عمر ایوب تاخیر سے پہنچنے پر جلسے سے خطاب نہ کر سکے۔ جلسے میں ہونے والی تمام تقریریں عدلیہ کے ساتھ اظہار یک جہتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر تنقید اور فارم سینتالیس والی حکومت اور اس کی قانون سازی کو نہ ماننے کے پیغامات لیے ہوئے تھیں۔
رکن قومی اسمبلی لطیف کھوسہ نے کہا، "قاضی فائز عیسیٰ کو مسلط کرنے کے لیے آئینی ترامیم کا ڈرامہ رچایا گیا وہ عمران کے خلاف فیصلے کر رہے ہیں ہم ان کو ملازمت میں توسیع نہیں لینے دیں گے۔" سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ وہ بغض اور عناد رکھنے والے جج نہیں مانتے انہیں اب پچیس اکتوبر کو گھر جانا ہوگا۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام تہیہ کر بیٹھے ہیں کہ عدلیہ آزاد ہوگی۔ شعیب شاہین نے اپنی تقریر میں حکومت کو مشورہ دیا کہ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان سے اڈیالہ جا کر معافی مانگ لو وہ معاف کر دے گا۔ "ملک کو بچانا ہے تو عمران خان سے معافی مانگنا پڑے گی۔"
پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون اس جلسے کو ناکام قرار دے رہی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ نے کہا ہے کہ ان لوگوں نے جتنے بلند و بانگ دعوے کیے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ہم نے ان کو مکمل طور پر فری ہینڈ دیا لیکن ان کا جلسہ ناکام ہوگیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کی رائے کے برعکس سینئر تجزیہ کار خالد فاروقی کا کہنا ہے، "اس جلسے نے ہمیں بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت ابھی کم نہیں ہوئی ہے۔" ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی سیاسی منظر نامے پر بڑی پارٹیوں کے مقابلے میں اکیلی ہے اس کی صوبائی اور لاہور کی لیڈرشپ بھی مؤثر نہیں ہے، پارٹی میں گروپ بندی بھی ہے لوگ صرف عمران خان کے لیے جلسے میں چلے آتے ہیں۔
نوجوانوں کی بھرپور شرکت
جلسے کے شرکا میں زیادہ تعداد چالیس برس سے کم عمر نوجوانوں کی تھی تاہم اس کے شرکا میں فیملیز، عورتیں، بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔ جلسے میں قیمیتی گاڑیوں والے امیر گھرانوں کے مرد و خواتین بھی آئے جبکہ زیادہ تعداد مڈل کلاس لوگوں کی تھی۔ جلسے میں موجود بہت سے لوگ عام سے کپڑے اور پلاسٹک کے سلیپر پہنے ہوئے تھے۔ نوجوانوں کی ٹولیاں "تیرا یار میرا یار قیدی نمبر آٹھ سوچار،" "نہ یہ مجرم نہ غدار قیدی نمبر آٹھ سو چار" کے نعرے لگا رہی تھے۔ اس موقع پر میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے لیے کچھ نازیبا اور غیر اخلاقی نعرے بھی لگائے گئے۔
سینئر تجزیہ کار خالد فاروقی کے مطابق اس جلسے کے حوالے سے لاہور میں کوئی گہما گہمی نہیں دیکھی گئی اور زیادہ تر لوگ باہر سے آئے تھے۔ ان کے بقول، "پی ٹی آئی ایسے جلسوں سے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے اور اسٹیئبلشمنٹ پر ان جلسوں کا کیا اثر ہوتا ہے اس کا پتہ آنے والے دنوں میں ہی چل سکے گا۔"
جلسہ گاہ میں ہم نے کیا دیکھا؟
کانہ کاچھا روڈ پر ہم نے پی ٹی آئی کے اسکارف اور ٹوپیاں بیچنے والے ایک بچے سے اس کے اسٹال کی تصویر بنانے کی اجازت چاہی تو وہ پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا کہ صرف ٹوپیوں کی تصویر بنالیں اگر میں تصویر میں آیا تو مجھے پولیس والے پکڑ کر لے جائیں گے۔ جلسہ گاہ کے پاس سے گزرنے والی رنگ روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ لوگ اس سڑک پر شام کے بعد بھی کئی کئی کلو میٹر پیدل چل کر جلسہ گاہ پہنچتے رہے۔ اسی سڑک پر ایک جگہ پر پی ٹی آئی کے کچھ ارکان سڑک پر باجماعت نماز عصر ادا کر رہے تھے، دوسری طرف جلسہ گاہ کے قریب فیروز والا سے آئے ہوئے کچھ پی ٹی آئی کے کارکن عمران خان کی فریم شدہ تصویر اپنے درمیان رکھے بیٹھے تھے اور لوگ اس پر پیسے نچھاور کر رہے تھے۔ محسن نامی ایک معمر بزرگ اپنی کرسی کے ساتھ سڑک پر بیٹھ کر جلسہ سن رہے تھے۔ محمد منشا نامی ایک شخص اپنی ایک سالہ بیٹی اور اہلیہ کے ساتھ جلسہ میں شرکت کے لیے وہاں آیا ہوا تھا۔
جلسہ گاہ کے اطراف میں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ کچھ پولیس اہلکار جلسہ گاہ کے آس پاس خار دار تاریں لگانے میں مصروف تھے۔ شام کے چھ بجتے ہی مسلح پولیس اہلکاروں نے جلسے کی جگہ کو گھیر لیا۔ بجلی اور ساؤنڈ سسٹم بند کروا کر اسٹیج کا کنٹرول پولیس نے سنبھال لیا۔ اس موقع پر ڈی جے نے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جلسے کے وقت کے خاتمے کا اعلان کیا، ایک پارٹی نغمہ لگانے کی فرمائش پر اس نے اسپیکر میں ہی بولتے ہوئے بے بسی سے کہا کہ ''سونگ لگاؤں گا تو مجھے کون بچائے گا؟‘‘