سمندری درجہ حرارت میں اضافے سے گریٹ بیریئر ریف شدید متاثر
25 اگست 2024ایک حالیہ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رواں برس جنوری تا مارچ سمندری درجہ حرارت گزشتہ چار سو سال کی بلند ترین سطح پر رہا، جس کے باعث آسٹریلیا کے 'گریٹ بیریئیر ریف‘ یا زیر آب مونگے کی چٹانوں کو شدید نقصان پہنچا۔
یہ تحقیق آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف وولونگونگ اور یونیورسٹی آف میلبورن سے منسلک محققین کی جانب سے مشترکہ طور پر کی گئی ہے، جو رواں ماہ سائنسی جریدے 'نیچر‘ میں شائع ہوئی۔
اس کی اشاعت سے کچھ دن قبل ہی اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی متعلقہ کمیٹی نے گریٹ بیریئر ریف کو خطرے سے دوچار مقامات کی فہرستمیں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس تحقیق کے لیے سمندری درجہ حرارت کے گزشتہ چار سو سال کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ اس کے نتائج کے مطابق سمندر کا بلند درجہ حرارت نہ صرف رواں برس گریٹ بیریئیر ریف کی بڑے پیمانے پر کورل بلیچنگ کا سبب بنا بلکہ ایسا سن 2022, 2020, 2017, 2016 اور 2004 میں بھی ہوا، جس سے گریٹ بیریئیر ریف پر ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے منفی اثر پڑا۔
کورل بلیچنگ کورل ریفس کو رنگت دینے والی ایلجی یا کائی کے ان سے علحیدہ ہونے کے عمل کو کہا جاتا ہے، جس کے تنیجے میں کورل ریفس اپنی رنگت کھو دیتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیاں اور سمندری درجہ حرارت میں اضافہ
اس حوالے سے نیچر میں شائع ہونے والی ریسرچ کے محققین اس نتنجے پر بھی پہنچے ہیں کہ سنمدری درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ انسانی سرگرمیاں کے باعث پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔
اس ریسرچ پر کام کرنے والی تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کرنے والے دو سائنسدانوں میں سے ایک ڈاکٹر بینجمن ہینلی نے بتایا کہ 2024ء کے سمندری درجہ حرارت کا تجزیہ کرتے وقت انہوں نے تین بار اپنی کیلکولیشنز چیک کیں کیونکہ وہ انتہائی بلند تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ درجہ حرارت 2017ء کے ریکارڈ درجہ حرارت سے بھی کہیں زیادہ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر فوری اور مربوط اقدامات نہیں کیے گئے تو ہم گریٹ بیریئر ریف کی شکل میں قدرت کا ایک حسین تحفہ کھو دیں گے۔
پاکستان میں بھی کورل بلیچنگ
پاکستان میں طویل عرصے تک کراچی یونیورسٹی کے شعبہ میرین سائنسز سے وابستہ رہنے والی ڈاکٹر فہمیدہ فردوس بتاتی ہیں کورل ریفس کا شمار ان متنوع ماحولیاتی نظاموں میں ہوتا ہے، جنہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ دیگر قدرتی نظاموں کی طرح کورل ریفس بھی خود کو پہنچنے والے نقصان کا تدارک ازخود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس کے لئے لمبے عرصے تک موافق ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ ان کے بقول اس کے لیے سمندر کا درجہ حرارت 23 سے 26 ڈگری سینٹی گریڈ ہونا چاہیے اور آکسیجن کی وافر مقدار ہونی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کے علاوہ اس دوران پانی کی صفائی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔‘‘
پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہاں چرنا اور استولہ کے جزیروں پر کورل ریفس پائے جاتے ہیں، جن کو اب سمندر کی سطح میں مسلسل اضافے کے باعث نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ ایسا ہونے سے گہرے پانی میں کورل ریفس تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، جب کہ یہ ان کی نشو نما کے لئے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ چرنا اور استولہ کے جزیروں کے اطراف سیاحتی سرگرمیوں اور تھرمل پاور پلانٹس کی وجہ سے سمندری پانی میں آلودگی اور تیزابیت بڑھ رہی ہے، جس سے کورل بلیچنگ میں بھی تیزی کے ساتھ سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ان کے بقول، '' کورل ریفس کو نقصان پہنچنے سے پورا میرین ایکو سسٹم متاثر ہوتا ہے اور لامحالہ اس کے اثرات انسانی زندگی پر پڑ رہے ہیں۔‘‘
اس کی ایک مثال سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع مبارک گوٹھ کے رہائشی ہیں۔
وہاں رہنے والے آصف بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 20 سال پہلے تک مبارک گوٹھ ''ماہی گیری کا مرکز تھا اور یہاں کی نوے فیصد آبادی اس پیشے سے وابستہ تھی۔ مگر اب ماحولیاتی تبدیلیوں، بڑھتی آبی آلودگی اور کورل بلیچنگ کے باعث مچھلیوں کی تعداد گھٹ کر محض دس فیصد رہ گئی ہے۔‘‘
اور کیونکہ مچھلیوں کی متعدد اقسام کا خوراک اور دیگر حوالے سے انحصار کورل ریفس پر ہوتا ہے، اس لیے کورل بلیچنگ ان کے لیے نقصان کا سبب بنتی ہے۔
آصف بتاتے ہیں کہ مبارک گوٹھ میں ''بہت سے خاندان عشروں سے ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ تھے، مگر مچھلیوں کی تعداد کم ہونے سے اب ان کا گزارا مشکل سے ہو پاتا ہے۔ ہزاروں افراد یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دوسرے پیشے اختیار کر رہی ہے۔‘‘