’چُوکا، ہميں وقت بتا دے‘ بھلا دیے گئے مہاجرین پر ایک فلم
19 اکتوبر 2017’چُوکا، ہميں وقت بتا دے‘ کے عنوان سے يہ فلم پاپوا نيو گنی کے جزيرے مانوس پر قائم ايک حراستی کيمپ کے سابقہ رہائشی ايرانی پناہ گزين بہروز بوشانی اور يورپی رياست ہالينڈ کے رہائشی ايرانی فلمساز عرش کاملی سروستانی نے مل کر بنائی ہے۔ يہ فلم اب تک دو بين الاقوامی ايوارڈز بھی جيت چکی ہے۔ ’چُوکا‘ در اصل ايک پرندے کا نام ہے جو اس جزيرے پر رہتا ہے۔ مانوس کے حراستی مرکز پر ’چُوکا‘ اس مخصوص يونٹ يا کمرے کا نام بھی ہے، جہاں مہاجرين کو سزا کے طور پر مکمل تنہائی ميں رکھا جاتا ہے۔ اس فلم کی کہانی ميں دکھايا گيا ہے کہ اس کمرے ميں مہاجرين کو اکثر تشدد کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔
فلم کے بارے ميں ڈی ڈبليو سے خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے بوشانی نے کہا، ’’ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھايا ہے۔‘‘ پورے کے پورے حراستی مرکز کی ويڈيو سی سی ٹی وی کيمروں کے ذريعے مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مرکز ميں موجود اکثريتی ايرانی پناہ گزين کيمرے کے سامنے بوشانی سے بات بھی نہيں کرنا چاہتے تھے۔ ايسے ہی حقائق کو ياد کرتے ہوئے بوشانی کہتے ہيں، ’’ہم نے يہ فلم کافی مشکل صورتحال ميں بنائی۔ فلم کی شوٹنگ چھ ماہ ميں مکمل کی گئی۔ يہ فلم ان تقريباً دو ہزار پناہ گزينوں کی داستان کی عکاسی کرتی ہے، جنہيں شايد بھلايا جا چکا ہے۔ ہم چاہتے تھے ان کی آوازيں عالمی سطح پر سنائی ديں۔‘‘ سروستانی کے بقول يہ فلم مہاجرين کے علاوہ مقامی لوگوں کے بارے ميں بھی ہے کيونکہ يہ سب ہی آسٹريليا کی ہجرت سے متعلق پاليسيوں سے متاثر ہوتے ہيں۔
آسٹريلوی محکمہ اميگريشن کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے قريب چار برسوں کے درميان پاپوا نيو گنی کے جزائر مانوس اور ناورو پر 2,125 پناہ گزين زير حراست رہے ہيں۔ رواں سال ستمبر کے اختتام تک وہاں قريب گيارہ سو تارکين وطن موجود تھے۔ آسٹريلوی حکومت کی پاليسيوں کے مطابق سمندر سے پکڑے جانے والے تارکين وطن کو سياسی پناہ نہيں دی جاتی بلکہ انہيں آسٹريلوی حدود سے باہر قائم ان جزائر پر حراست ميں رکھا جاتا ہے۔