’چین آسٹریلیا میں اعلیٰ سطح کی جاسوسی کر رہا ہ۔ے‘
20 اکتوبر 2020اس نظریے کے ماننے والے متعدد سیاستدان اب اس مشتبہ بیرون ملک اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کی جانے والی کارروائیوں کی تحقیقات میں مصروف ہیں۔ خاص طور سے چین پر اس سلسلے میں کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ آسٹریلیا کی خفیہ سروسز کے اعلیٰ عہدیدار عموماً سخت خاموشی اختیار رکھتے ہیں تاہم اس وقت یہ سب غیر معمولی طور پر بیباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھل کر بات کر رہے ہیں۔ دریں اثناء آسٹریلیا کی 'سکیورٹی انٹیلیجنس آرگنائزیشن‘ کے چیف مائیکل بورجس نے اس بارے میں ایک بیان میں کہا،'' اس وقت آسٹریلیا کے مفادات کے خلاف غیر ملکی جاسوس اور ان کے پراکسی کا کام کرنے والوں کی تعداد سرد جنگ کے دور میں جاسوسی کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
بورجس نے متنبہ کیا کہ آسٹریلیا میں رہائش پذیر غیر ملکی 'ڈائسپورا‘ گروپوں کی غیر ملکی حکومتوں کے ایجنٹس کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے اور انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی طرف سے کروائی گئی ایک تفتیش کے مطابق چین سے جلا وطن ہو کر آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں پناہ لینے والے ایغور اقلیتی مسلم گروپوں کو جاسوسی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیز ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے طلبہ جو آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، نے ہانگ کانگ اپنے والدین اور فیملی کے دیگر ارکان کو دھمیکاں ملنے کی اطلاع دی ہے۔ خاص طور سے گزشتہ برس جمہوریت کے حامیوں کی طرف سے مظاہروں کے بعد سے ان کے گھر والوں کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔
آسٹریلیا کے جاسوسی اداروں کے اہلکار چین کی طرف سے ان کے ملکی سیاسی نظام میں مداخلت کو تشویشناک قرار دے رہے ہیں۔ چین کا نام لیے بغیر آسٹریلیا کی 'سکیورٹی انٹیلیجنس آرگنائزیشن‘ کے چیف مائیکل بورجس نے کینبرا میں آسٹریلیا کے قانون سازوں کے سامنے اپنی تقریر میں کہا، ''غیر ملکی نگرانی اور آسٹریلیا میں آباد ڈائسپورا گروپوں کو دھمکیاں دینے کا مقصد آسٹریلیا کی خود مختاری پر حملے سے کم نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا،''یہ ناقابل قبول ہے کہ آسٹریلیا کے باشندوں کو صرف جمہوری اصلاحات کی حمایت کرنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر تنقید کرنے کی وجہ سے ڈرایا، دھمکایا جائے۔‘‘
حالیہ برسوں میں بیجینگ سے وابستہ عطیہ دھندگان سے نقد رقوم وصول کرنے یا چینی پروپیگینڈا کی کوشش میں حصہ لینے کا الزام کے تحت آسٹریلیا کے سیاستدانوں کو متعدد اسکینڈلز میں الجھایا گیا۔ بورجس نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ''ملکی سیاستدانوں کو ہمارے راز چوری کرنے اور ہمارے فیصلوں پر اثرانداز کی کوشش کے ضمن میں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا،''ہمیں انٹیلیجنس خدمات دینے والوں کے کردار سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ وہ غیر ملکی ممالک کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے حکومت کے ہر سطح کے سیاستدانوں کو دھوکہ دہی سے تیار کر رہے ہیں۔‘‘
آسٹریلیا کی خفیہ سروس ASIO کے چیف کے پیش رو ڈنکن لیوس نے گزشتہ برس خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ،''چین جاسوسی اور اثر و رسوخ کے ذریعے آسٹریلیائی سیاسی نظام پر حاوی ہونے ، اسے اپنے زیر اثر لینے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے وسیع پیمانے پر مہم کے ایک حصے کے طور پر آسٹریلیائی سیاسی جماعتوں کے لیے چینی ایجنٹوں کی بڑی شراکت کے واقعات کو یکجا کیا جس میں میڈیا اور ملک کی یونیورسٹیوں کو بھی نشانہ بنانے کے شواہد ملتے ہیں۔
ک م/ ع ت (اے پی ، اے ایف پی)